غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کی مساعی میں مصر اور اقوام متحدہ کے مشرق وسطیٰ کے لیے امن مندوب ’نیکولائے ملاڈینوف‘ کا کلیدی کردار رہا ہے۔ حال ہی میں ایک خبر سامنے آئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ صدر محمودعباس اور فلسطینی اتھارٹی غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمتی قوتوں اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کی کوششوں کی بناء پر نیکولائی ملاڈینوف سے سخت ناراض ہے۔ اقوام متحدہ کے امن مندوب اور مصر نے فریقین کے درمیان سنہ 2014ء کے دوران طے پائی جنگ بندی کو آگے بڑھانے کی کوشش کی مگر تحریک فتح کی طرف سے غزہ میں امن وسکون حقیقت میں فلسطینی اتھارٹی اور تحریک فتح دونوں خود بھی تشکیک کا شکار ہیں اور ان کی قوم کے حوالے سے پالیسی بھی مشکوک ہے۔ وہ ایک طرف تو صیہونی ریاست کے ساتھ ہرطرح کے روابط ختم کرنے اور اسرائیلی اقدامات کی مخالفت کا اعلان کرتی ہیں اور دوسری طرف عملا صیہونی ریاست کے ساتھÂ سیکیورٹی کے شعبوں میں تعاون بھی جاری ہے۔ فلسطینی مزاحمتی گروپ اگر غزہ میں جنگ بندی کی مساعی کریں تو وہ بھی رام اللہ حکومت اور تحریک فتح کو منظور نہیں۔
جنگ بندی اور قومی مفاد
فلسطینی تجزیہ نگار کمال علاونہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں فلسطینی مزاحمتی تنظیموں اور قابض اسرائیل کے درمیان جنگ بندی فلسطینی قوم کے مفاد میں ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ اسرائیل کے بھی مفاد میں ہے مگر تحریک فتح کے مفاد میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک فتح غزہ میں امن وسکون کے قیام اور جنگ بندی کی مخالفت کر رہی ہے۔
مکمال علاونہ نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں تحریک فتح کے ارکان جماعت کی مرکزی قیادت کے کنٹرول سے باہر ہیں۔ غزہ اور غرب اردن میں تحریک فتح کی قیادت میں تنظیمی امور کے بارے میں بھی اختلافات ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اوسلو سمجھوتے کے بعد عمومی انقلابی تحریک بالخصوص تحریک فتح کی لغت سے مسلح جدو جہد ختم ہوچکی ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے قیام کے بعد تحریک فتح کی قیادت اور فلسطینی مزاحمتی قوتوں کے درمیان محاذ آرائی جاری ہے۔ فلسطینی اتھارٹی اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون پر عمل پیرا ہے۔ سنہ 2000ء میں فلسطین میں شروع ہونے والی تحریک انتفاضہ الاقصیٰ کے بعد تحریک فتح نے اسرائیل کی خوش نودی کے لیے اپنا عسکری ونگ شہداء الاقصیٰ بریگیڈ ختم کردیا۔ سنہ 2007ء میں غزہ کی پٹی میں پیش آنے والے واقعات کے بعد تحریک فتح اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہے۔ فلسطینی مزاحمتی قوتوں کو دہری جنگ کا سامنا ہے۔ ایک طرف تحریک فتح اور دوسری طرف قابض اسرائیل ہے۔ دریائے اردن کے مغربی کنارے میں حماس کی قوت کو دبانے کی پالیسی جاری ہے اور اس میں اسرائیل اور فتح دونوں ایک صف میں ہیں۔
’پی ایل او‘ کی چھتری
تحریک فتح اور فلسطینی اتھارٹی کی خواہش یہ ہے غزہ کی پٹی میں اگر جنگ بندی ہوتی ہے تو وہ بھی اس کے سائے تلے ہو۔ اس کا کریڈٹ اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) یا کسی دوسرے کو نہ جائے بلکہÂ اس کا سیاسی فائدہ فتح کو حاصل ہونا چاہیے۔
کمال علاونہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی کی مخالفت کے کے دیگر اسباب میں فتح کی قیادت میں تنظیمی، ابلاغی اور انتظامی اختلافات بھی ہیں۔
گذشتہ ماہ اگست حماس اور دیگر فلسطینی قوتوں نے تحریک فتح کی طرف سے مزاحمت مخالف مؤقف کو مسترد کردیا۔ تحریک فتح کی طرف سے کہا گیا تھاÂ کہ سنہ 2014ء کی جنگ بندی کو مستحکم کرنے کے لیے مزاحمتی تنظیمیں ہتھیار پھینک دیں۔
فتح کو اپنی اجارہ داری کے خاتمے کا خطرہ
ماہرین کا خیال ہے کہ تحریک فتح کو ایک خوف حماس کی طرف سے اس کی جگہ لینے کا ہے۔ فتح کی قیادت بلا جواز یہ سمجھ رہی ہے کہ مذاکرات پراس کی اجارہ داری کو خطرہ ہے اور حماس اس کی جگہ لے سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فتح کی قیادت کی طرف سے حماس کے خلاف سخت پالیسی اختیار کی گئی ہے، حالانکہ حماس کی طرف سے صاف صاف کہا گیا ہے کہ جماعت اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات نہیں کرے گی اور نہ صیہونی ریاست کے ساتھ کوئی سیاسی سمجھوتہ کیاجائے گا۔
کمال علاونہ کا کہنا ہے کہ تنظیم آزادی فلسطین اس بات سے خائف ہے کہ اس کے پاؤں کے نیچے سے مذاکرات کی بساط لپیٹی جاسکتی ہے۔ یہی وہ وجہ ہے جس کی بناء پر غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کی مساعی کی مخالفت کی جا رہی ہے۔
جنگ بندی اور محاصرے کا خاتمہ
فلسطینی تجزیہ نگار عصام شاور نے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی اور امن معاہدہ تحریک فتح کے لیے ’ڈراؤنا خواب‘Â ہے۔ تحریک فتح کوخدشہ ہے کہ اگر غزہ میں اس کی شراکت کے بغیر جنگ بندی معاہدہ ہوتا ہے اس کے نتیجے میں غزہ کا محاصرہ ختم ہوسکتا ہے اور حماس پر اسرائیل اور دوسری قوتوں کا دباؤ ختم ہونے کا اندیشہ ہے۔
حماس کے غزہ کی پٹی میں قائد یحییٰ السنوار نے کہا ہے کہ ان کا اصل مشن غزہ میں جنگ بندی کے ساتھ ساتھ محاصرہ کو ختم کرنا ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار یاسر مناع نے کہا کہ تحریک فتح کا اصل مسئلہ غزہ میں جنگ بندی نہیں بلکہ فتح کی قیادت کو خدشہ ہے کہ حماس اس کی جگہ لے سکتی ہے۔ اگر حماس تحریک فتح کا متبادل بن جاتی ہے تو حماس ہی فلسطینی قوم کی حقیقی نمائندہ ہوگی۔