موصوف نے شعوری طور پر اپنی المناک موت تک جتنی زندگی گذاری اس میں قوم و ملت کے لیے درد موجزن رہا، مگر قدرت کو انہیں مزید زندہ رکھنا شاید گوارا نہیں تھا۔ چنانچہ دشمن سال ہا سال کے تعاقب کی وجہ سے ان کا کچھ نہ بگاڑ سکا مگر تقدیر نے اچانک انہیں آلیا۔
اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے جلیل القدر رہنما انجینیر عماد العلمی جماعت کے سیاسی شعبے کے سینیر سابق رکن تھے۔ ان کا شمار حماس کے بانی رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ان کا شمار غزہ کے متمول گھرانوں کے فرد کے طورپر ہوتا تھا مگر اس کے باوجود حماس کے قیام سے لے کرآخر دم تک وہ حماس کے روحانی قائد کے طورپر جانے جاتے تھے۔
انجینیر عماد العلمی المعروف ابو ھمام 12فروری 1956ء کو غزہ کی پٹی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم غزہ ہی کے اسکولوں سےحاصل کی۔ ان کی اٹھان دینی تعلیم کے ماحول میں ہوئی اور شروع ہی سے حماس کے بانی رہنما الشیخ احمد یاسین کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔ انہوں نے الشیخ احمد یاسین کی تجویز پر مصر کی جامعہ الاسکندریہ سے سول انجینیرنگ کی تعلیم حاصل کی۔
حماس کے ساتھ وابستگی
عماد العلمی ابھی کم عمر تھے جب حماس کا قیام عمل میں آیا۔ چونکہ ان کے بچپن ہی سے الشیخ احمد یاسین کے ساتھ قریبی مراسم تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے الشیخ کی تجویز پر مصر کی جامعہ اسکندریہ میں داخلہ لیا۔ انہوں نے سول انجینیرنگ کی ڈگری اعلیٰ نمبروں کے ساتھ حاصل کی اور واپس غزہ آگئے۔ غزہ کی پٹی میں آمد کے ساتھج ہی انہوں نے حماس کے ساتھ وابستگی اختیار کی اور صیہونی ریاست کے خلاف جاری حماس کی جدو جہد کا عملی حصہ بن گئے۔
حماس کے ساتھ وابستگی کے وقت وہ نوجوان تھے۔ حماس کے ساتھ تعلق کے قیام کے بعد ابتدامیں جماعت کے ابلاغی شعبے میں خدمات انجام دیں۔
گرفتاری اور جلا وطنی
حماس کی تشکیل کے صرف چھ ماہ کے بعد اسرائیلی فوج نے جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن شروع کیا۔ گرفتار ہونے والوں میں عماد العلمی بھی شامل تھے۔Â اسرائیلی عدالت نے حماس کے ساتھ تعلق کے الزام میں ان پر مقدمہ چلایا اور دو سال قید کی سزا سنائی۔ ان کے خلاف عائد کردہ فرد جرم میں حماس کے ابلاغی شعبے میں کام کرنے، حماس کے نیٹ ورک کو وسیع کرنے کے ساتھ صیہونی ریاست کے خلاف مزاحمتی کارروائیوں میں حصہ لینے کا الزام عائد کیا گیا۔
سنہ 1990ء میں انہیں جیل سے رہا کردیا گیا۔ رہائی کے بعد وہ ایک بار پھر حماس کی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئےْ جنوری 1991ء کو انہیں دوبارہ حراست میں لے لیا گیا۔ حراست میں لینے کے بعد انہیں حماس رہنما مصطفیٰ اللداوی، مصطفیٰ القانوع، فضل الزھار اور کئی دوسرے رہنماؤں سمیت ملک بدر کردیا۔
خدمات
فلسطین سے بے دخل کیے جانے کے بعد عماد العلمیÂ کئی عرب ممالک میں گئے جہاں انہوں نے قضیہ فلسطین کی حمایت میں سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا۔ انہیں بیرون ملک کئی سال تک مختلف عرب ملکوں میں جماعت کے مندوب کے طور پر تعینات کیا گیا۔ کئی سال وہ تہران میں حماس کے مندوب کے طور پرخدمات انجام دیتے رہے۔
العلمی حماس کے ایران میں پہلے مندوب تھے اور بیرون ملک حماس کی نیابت کی خدمات 2012ء تکÂ ادا کرتے رہے۔ سنہ 2012ء میں وہ 20 سال کی جلاوطنی مکمل کرنے کے بعد غزہ واپس لوٹے۔
سنہ 2013ء میں انہیں غزہ میں وزیراعظم اسماعیل ھنیہ کا نائب مقرر کیا گیا۔ سنہ 2014ء میں غزہ پر اسرائیلی فوج کی بمباری کے دوران ان کی ایک ٹانگÂ زخمی ہوگئی تھی۔
نو جنوری 2018ء کوعلی الصباح ان کی اپنی بندوق چلنے سے وہ شدید زخمی ہوئے۔ حماس کے ترجمان نے بتایا کہ العلمی اپنے گھر میں گولی لگنے سے زخمی ہوئے۔ ان کے سرمیں گولی لگی ہے جس کے بعد انہیں اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ وہ 30 جنوری تک اسپتال میں انتہائی نگہداشت وارڈ میں رہے جہاں وہ جاں بر نہ ہوسکے اور انتقال کر گئے۔