مقبوضہ بیت المقدس – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) ایک ایسے عالم اور ایام میں جب دنیا بھر میں رسول اکرم حضرت محمد (ص) کی ولاد ت با سعادت کی مناسبت سے عید میلادالنبی منایا جا رہا ہے غاصب صیہونی حکومت نے فلسطینیوں کے خلاف اپنے مظالم میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
موجودہ صورت حال اس بات کی متقاضی ہے کہ رائے عامہ بالخصوص امت مسلمہ فلسطینیوں کو صیہونی مظالم سے نجات دلانے کے لئے سنجیدہ اقدامات انجام دے۔ گزشتہ تین عشروں میں مشرق وسطی میں آنے والی تبدیلیوں اور اس خطے اور عالمی سیاست میں نیا رجحان سامنے آیا ہے اور وہ غاصبانہ قبضے کے خلاف استقامت اور اس کی نفی نیز سامراجی طاقتوں کے خلاف مظلوموں کی حمایت پر استوار ہے اور بلا شبہ اس رجحان اور نظریئے کی بنیاد اسلامی تعلیمات ہیں۔ اس تناظر میں سب سے اہم موضوع مسئلہ فلسطین اور فلسطینیوں کی سرزمینوں بالخصوص قبلہ اوّل پر صیہونی حکومت کا غاصبانہ قبضہ ہے۔غاصب صیہونی حکومت کی یہ دیرینہ خواہش ہے کہ اپنی پسلط پسندانہ اور توسیع پسندانہ پالیسیوں کو آگے بڑھاتے ہوئے عالمی برادری اور امت مسلمہ کی توجہ کو مسئلہ فلسطین سے منحرف کردے اور عالم اسلام کے اس اہم ترین مسئلے سے توجہ ہٹا کر مقبوضہ علاقوں میں اپنی مرضی کی پالیسیاں نافذ کرسکے۔ غاصب صیہونی حکومت اپنے مذموم اہداف کے حصول کے لئے فلسطینیوں کو مسلسل اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنا رہی ہے۔ اسی حوالے سے جمعرات کے روز غاصب صیہونی حکومت کے فوجی فوجی مشقوں کے بہانے شعفاط کے کیمپ میں داخل ہوگئے۔ صیہونی حکومت کے فوجیوں کے اس اقدام کے ردعمل میں اس فلسطینی کیمپ میں باقاعدہ جھڑپیں شروع ہوگئیں۔
فلسطین میں اکتوبر 2015 سے نئی تحریک انتفاضہ قدس کے نام سے جاری ہے جس میں اب تک 268 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای مسئلہ فلسطین اور فلسطینیوں کے غصب شدہ حقوق کی بازیابی پر مسلسل تاکید کر رہے ہیں۔ آپ نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر اسرائیل کے خلاف مسلسل اور متحد ہوکر جد و جہد جاری رکھی جائے تو یہ غاصب حکومت آئندہ 25 سالوں میں ختم ہوجائے گی۔
قابل غور نکتہ یہ ہے کہ فلسطین اور فلسطینیوں کی آزادی اور ان کے حقوق کے حصول کا واحد راستہ مقابلہ و جد و جہد اور استقامت ہے اور اس کے علاوہ جو بھی راستہ اپنایا گیا وہ مقصد تک نہیں پہنچے گا۔ ایسی صورت حال میں تمام مسلمانوں اور حریت پسندوں کا فریضہ بنتا ہے کہ وہ فلسطینیوں کی ہر طرح کی حمایت کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرلیں۔
دوسری طرف اس ہدف تک پہنچنے کے لئے دہشت گرد تکفیری گروہوں منجملہ داعش کے خلاف مسلسل مقابلے کا سلسلہ بھی جاری رہنا چاہئے کیونکہ اگر داعش اور اس طرح کے دیگر دہشت گرد تکفیری گروہوں کے خلاف مقابلہ جاری نہ رہا تو اس بات کا خطرہ ہے کہ مسئلہ فلسطین نظر انداز ہوجائے اور رائے عامہ اور مسلمانوں کی توجہ کسی اور طرف مبذول رہے۔
گزشتہ سالوں میں صیہونی حکومت اور اس کے اتحادیوں نے پوری کوشش کی ہے کہ تکفیری دہشت گردی کے مسئلے کو خطے سے عالمی سطح پر پھیلا دیں تاکہ مسئلہ فلسطین سے لوگوں کی توجہ ہٹ جائے۔ یہ بات واضح کرتی ہے کہ مشرق وسطی کو صیہونیوں اور تکفیریوں سے مسلسل خطرہ ہے کیونکہ ان دونوں کے اقدامات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ صیہونی اور تکفیری ایک سکے کے دو رخ ہیں اور ان کا ہدف خطے میں فتنہ انگیزی اور تسلط پسندی کے علاوہ کچھ نہیں۔ خطے کی حساس صورت حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ مسئلہ فلسطین کو رائے عامہ بالخصوص امت مسلمہ میں پہلی ترجیج قرار دیا جائے کیونکہ گزشتہ سالوں میں غاصب صیہونی حکومت کے مذموم اہداف خطے اور عالمی سطح پر مزید نمایاں ہوکر سامنے آگئے ہیں اور عالمی سطح پر اس کی مذمت بھی ہو رہی ہے۔