مقبوضہ بیت المقدس – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطینی شہریوں کی زندگی اجیرن بنانے کے لیے صہیونی ریاست جہاں پوری ریاستی میشنری کا استعمال کررہی ہے وُہیں فلسطینی اراضی غصب کرنے اور فلسطینیوں کا نظام زندگی درہم برہم کرنے کے لیے چپے چپے پر صہیونی کالونیاں، صنعتی کارخانے، فیکٹریاں اور دیگر حربے بھی فلسطینیوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کا ایک مکروہ حیلہ ہے۔
فلسطینی آبادی کو ان کے آبائی شہروں سے بے دخل کرنے کے لیے صہیونی شرپسندوں کی خاطر کالونیاں بنائی جا رہی ہیں۔ انہی کالونیوں میں جگہ جگہ صنعتی کالونیاں بنا کر جنت نظیر وادی کی سرسبزی و شادابی کو برباد اور فلسطینی قدرتی ماحول کو تباہ کیا جا رہا ہے۔اس رپورٹ میں فلسطینی شہروں میں بنائی گئی صہیونی صنعتی کالونیوں اور ان کے فلسطینی آبادی، ماحول اور انسانی صحت پر مرتب ہونے والے تباہ کن اثرات کاجائزہ لیا گیا ہے۔
اس ضمن میں فلسطینی علاقوں میں صہیونی صنعتی کالونیوں کی تفصیلات ’کیرم نافوت‘ نامی ایک صہیونی تنظیم نے بھی بیان کیے ہیں۔
سول انتظامیہ کا پلان
اسرائیل کے عبرانی اخبار’ہارٹز‘ میں ’یوتان بیرگر‘ نامی ایک مصنف اور تجزیہ نگار کا تفصیلی مضمون شائع ہوا ہے۔ اس تفصیلی مضمون میں فلسطین کے دریائے اردن کے مغربی کنارے کے شہروں میں قائم کی گئی صہیونی صنعتی کالونیوں کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ فاضل مضمون نگار کا کہنا ہے کہ غرب اردن میں اسرائیلی حکومت کے زیرانتظام سول ایڈمنسٹریشن کی زیرنگرانی صنعتی کالونیاں تعمیر کی جا رہی ہیں۔
بیرگر کے مطابق صہیونی سول ایڈمنسٹریشن نے غرب اردن میں چار نئی صنعتی کالونیاں بنانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ Â ان نام نہاد صنعتی کالونیوں کےقیام کے لیے ہزاروں دونم فلسطینی اراضی غصب کی جا رہی ہے۔
یہ صہیونی صنعتی کالونیاں جنوبی الخلیل میں ترقومیا چیک پوسٹ اور مکابیم چیک پوسٹ میں بنائے جانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ شمالی شہر قلقیلیہ میں الکانا اور اورنیٹ کالونیوں کے درمیان صنعتی کالونی تعمیر کی جائے گی اور ایک صنعتی کالونی مغربی رام اللہ کے قریب ’نفیہ زوف حلمش کالونی کے قریب تعمیرکیے جانے کا پلان بنایا گیا ہے۔
مسٹر بیرگر کا کہنا ہے کہ سول ایڈ منسٹریشن نے غرب اردن میں کئی دوسری صہیونی کالونیاں بھی بنائی جا رہی ہیں جن میں کارخانے لگانے کے ساتھ ساتھ دیگر مقاصد کے منصوبے شامل ہیں۔
غیراعلانیہ ہدف
اسرائیلی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ غرب اردن میں حال ہی میں چار صنعتی کالونیاں قائم کی گئیں جنہیں میشور، ادومیم، برکان اور اریئیل اور شحاک کا نام دیا گیا۔ یہ کالونیاں غرب اردن کے شمالی علاقوں میں بنائی گئی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ مذکورہ صہیونی کالونیوں میں صہیونی انتظامیہ عملی طور پران کالونیوں میں تجارتی اور کاروباری مراکز قائم کیے جائیں گے۔ ان میں کوڑا کرکٹ پھینکنے کے علاوہ دیگر سروسز کے مراکز قائم کیے جائیں گے۔
دیگر فلسطینی علاقوں میں شاعر بنیامین، غوش عتصیون، میتریم، بارون، اور معالیہ عاموس کالونیاں قائم کی گئی ہیں۔ میں بھی جگہ جگہ صنعتی کالونیاں بنائی جا رہی ہیں۔
صہیونی تجزیہ نگار نے اعتراف کیا ہے کہ ان کالونیوں کے درپردہ اسرائیل کا اصل مقصد فلسطینی علاقوں پر غاصبانہ قبضہ جمانا اور فلسطینیوں کے لیے عرصہ حیات تنگ کرنا ہے۔
صہیونی حکام فلسطینی اراضی غصب کرنے اور املاک کی لوٹ کے عزائم کے لیے فلسطین Â کے چپے چپے پر رہائشی کالونیوں کے ساتھ ساتھ صنعتی کالونیاں بھی بنائی گئی ہیں۔
مہلک بم
فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست کی خبیث چالاکیوں اور مکرو حیل کے درپردہ فلسطینی علاقوں کی اراضی اور املاک کو ہتھیانے کی سازش ہے۔ اسرائیلی حکومت اور اس کے تمام ریاستی ادارے مختلف حیلوں اور چالوں کے ذریعے وسیع پیمانے پر اراضی کو ہتھیاتے ہوئے فلسطینی شہریوں پرعرصہ حیات تنگ کرنا ہے۔
فلسطینی علاقوں میں قائم کی گئی صنعتی کالونیاں فلسطینی آبادی کے لیے مہلک بموں سے کم نہیں۔ فلسطینیوں کی اراضی غصب کرنے کے ساتھ ساتھ ماحولیات کی تباہی اس کا ایک لازمی نتیجہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صنعتی کالونیاں فلسطینی اراضی کے سرقے تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک غیرمعمولی حیاتیاتی اور آبادیاتی خطرہ ہے۔
غرب اردن کا شمالی شہر سلفیت اس اعتبار سے انتہائی خطرناک مقام بن چکا ہے جہاں اس وقت 2000 سے زائد کارخانے قائم ہیں۔ یہ کارخانے نہیں بلکہ فلسطینی آبادی کے لیے مہلک بم ہیں جن سے نکلنے والی مہلک گیسیں، فضلہ اور دیگر مواد مقامی زراعت، آبادی اور ماحولیات کے لیے بد ترین تباہی ہے۔
فلسطینی علاقوں کو صنعتی کالونیوں سے تباہ کرنے کی صہیونی سازش کی روک تھام میں فلسطینی اتھارٹی اور عالمی برادری کا منفی کردار بھی قابل مذمت ہے۔ اس باب میں فلسطینی انتظامیہ اور رام اللہ اتھارٹی کی مجرمانہ غفلت صاف دکھائی دیتی ہے۔