غزہ – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطینیوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کے لیے قابض اسرائیلی افواج میں بھانت بھانت کے قاتل پائے جاتے ہیں۔ انہی رنگا رنگ قاتلوں میں ایک گروپ ’زرخرید قاتلوں‘ کا بھی شامل ہے۔ یہ وہ عناصر ہیں جو چند ٹکوں کی خاطراسرائیلی فوج میں بھرتی ہوکر نہتے فلسطینیوں کا قتل عام کرتے ہیں۔
یہ ’اجرتی قاتل‘ کون ہیں؟ انہیں کہاں سے اور کیوں لایا جاتا ہے؟ اور ان کی مدد کون کرتا ہے؟ اس رپورٹ میں اسرائیلی فوج نے ان پراسرار اجرتی قاتلوں کے بارے میں حیران کن معلومات فراہم کی جا رہی ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھاڑے کے ان ٹٹوؤں کو اسرائیل لانے اور انہیں فوج میں بھرتی کرنے میں’عالمی صہیونی ایجنسی‘ اور کئی دوسرے صہیونی اداروں کا ہاتھ ہے۔ یہ صہیونی ایجنسیاں نہ صرف یہودیوں کو بلکہ دوسرے مذاہب بالخصوص بنیاد پرست عیسائیوں کو بھی اسرائیل لانے کے لیے انہیں سبز باغ دکھاتی ہیں۔
اسرائیل میں ان اجرتی قاتلوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ یہ لوگ انتہائی ذلت کی زندگی گذارتے ہیں۔ یہ وہ صہیونی اور عیسائی ہیں جو اپنے خاندانوں کے ساتھ نہیں بلکہ انفرادی طور پر لائے گئے ہیں۔ Â زیادہ سے زیادہ ان کے رشتہ دار فلسطینی علاقوں میں آباد ہوئے ہیں مگر یہ ’زرخرید‘ صہیونی ان رشتہ داروں کے ساتھ نہیں رہتے۔
انہیں مختلف حیلوں اور بہانوں سے بہلا پھسلا کر مقبوضہ فلسطین لایا جاتا ہے جہاں انہیں فوجی تربیت دینے کے بعد فوج میں بھرتی کیا جاتا ہے۔
غیرمعمولی توجہ اور پذیرائی
اسرائیل کے موقر عبرانی اخبار’ہارٹز‘ نے بھی استفسار کیا ہے کہ آیا سیاسی اور عسکری سطح پر فوجیوں میں زرخرید عناصر کو بھرتی کرنے کا کیا جواز ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ صہیونی حکومت اور فوج Â اجرتی قاتلوں کو فوج میں بھرتی کرنے پر اس قدر غیرمعمولی توجہ دیتی ہے۔ اگرچہ ان صہیونی اشرار کی خاص مواقع بالخصوص مذہبی تہواروں اور صہیونی عیدوں کے مواقع پر ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ جیسا کہ آنے والے دنوں میں ’البیسح‘ نامی صہیونی عید کے موقع پر ان اجرتی قاتلوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ البتہ یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ عالمی اقتصادی بحرانوں کے نتیجے میں اسرائیلی فوج میں بھرتی ہونے والے اجرتی قاتلوں کی تعداد میں اضافے کا قوی امکان ہے۔
اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوج میں معمولی اجرت پر 6800 صہیونیوں کو بھرتی کیا گیا ہے۔ ان میں 25 فی صد فوجی باقاعدہ جنگی کارروائیوں میں حصہ لیتے ہیں جب کہ 50 فی صد کو داخلی محاذ اور 25 فی صد کو ریفرنس یونٹوں میں رکھا جاتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج میں بھرتی ہونے والے 54 فی صد اجرتی قاتل بیرون ملک سے فلسطین لائے گئے گئے۔ انہیں محکمہ انسانی وسائل کے وضع کردہ فریم ورک کے مطابق تقسیم کیا گیا ہے۔ ان میں 46 فی صد اجرتی قاتل بغیر کسی معاون کے کام کرتے ہیں۔ ان میں 993 کا تعلق امریکا سے ہے۔ 607 کو فرانس سے، 563 کو یوکرائن، 531 کو روس اور باقی قاتلوں کو تھائی لینڈ، قبرص اور عرب ممالک سے لایا گیا ہے۔
زرخرید فوجی قاتل کون ہوتے ہیں؟
ممکن ہے بہت سے لوگوں کے لیے ’زرخرید فوجی‘ کی اصطلاح اجنبی ہو۔ اس لیے یہ بتانا مفید ہے کہ اجرتی قاتل فوجی کون ہوتے ہیں۔
یہ وہ صہیونی فوجی اہلکار ہیں جو اسرائیل میں اپنے خاندان کے بغیر آئے۔ اسرائیل میں ان کے خاندان کا کوئی ایک فرد بھی نہیں۔ ایسے تمام صہیونی فوجیوں کے لیے’اجرتی اہلکار‘ کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ یہ لوگ ایسے اسباب کے تحت اسرائیل آئے ہیں جنہیں اسرائیلی فوج کےہاں غیریقینی قرار دیا جاتا ہے۔ زیادہ تر معاشی ضروریات کے پیش نظر یہودی اسرائیل آتے ہیں اور یہاں وہ فوج میں ’بھاڑے کے ٹٹو‘ بن جاتے ہیں۔ دوسرا سبب مذہب ہے۔ اسرائیلی فوج میں کام کرنے والے اجرتی اہلکاروں کے طور پرکام کرنےوالوں میں ایک گروپ مذہبی بنیادوں پر یہاں آیا۔ ان میں صہیونیوں کے علاوہ پروٹسٹنٹ عیسائی بھی شامل ہیں۔ عیسائیوں کا یہ گروپ ارض فلسطین میں صہیونیوں کے وجود پر یقین رکھتا ہے۔ مسجد اقصیٰ کو شہید کرنے اور اس کی جگہ مزعومہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے صہیونی فلسفے کا حامی ہے۔ صہیونیوں اور پروٹسٹنٹ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر سے حضرت مسیح علیہ السلام کا نزول جلد ہوگا۔
ان صہیونیوں اجرتی قاتلوں میں بعض تو باقاعدہ اسرائیلی ریاستی قانون کے تحت فوج میں بھرتی ہوے ہیں۔ انہیں باضابطہ فوجی سمجھا جاتا ہے۔ دوسرا گروپ رضاکاروں پر مشتمل ہے۔ ان دونوں گروپوں سے وابستہ صہیونیوں کا درجہ اوّل کا کوئی قریبی عزیز فلسطین میں مقیم نہیں۔ البتہ بعض اہلکاروں نے دور پار کے رشتہ دار فلسطین میں آباد کیے گئے ہیں۔
یہ صہیونی فوجی کسی خاندان کے ساتھ نہیں بلکہ الگ تھلگ رہتے ہیں۔ یہود اور نصاریٰ کے علاوہ دوسرے مذاہب کے پیروکار بھی شامل ہیں۔
اسرائیل کے عبرانی ٹی وی 2 کی رپورٹ کے مطابق فوج ہرسال 1300 اجرتی قاتلوں کو اپنی صفوں میں بھرتی کرتی ہے۔ اجرتی قاتلوں کی بھرتی کے معاملے میں صہیونی فوج کینسٹ (پارلیمنٹ) کے مطالبات کو بھی نظرانداز کرتی ہے۔ پارلیمنٹ کے فیصلے کے تحت فوج Â بہ طور ادارہ اہلکاروں میں امتیاز نہیں برت سکتا۔ تاہم فوج عمل ایسا نہیں کرتی۔ جن صہیونی فوجیوں کے خاندان فلسطین میں آباد نہیں انہیں دوسرے صہیونی فوجیوں کی نسبت کم سے کم مراعات دی جاتی ہیں۔
عبرانی ٹی وی کے عسکری تجزیہ نگار ’ایٹزک مولی‘ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج میں اجرتی قاتلوں کو کئی طرح کی معاشی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ اجرتی قاتلوں کو تحائف، تمغے اور اس نوعیت کی کوئی سہولت حاصل نہیں۔ نہ فیملی الائونس اور نہ ہی خوراک، پانی اور بجلی کےبلات کی مد میں اضافہ رقوم فراہم کی جاتی ہیں۔ وہ اپنا تمام تر گذر بسر معمولی تن خواہ پر کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بہت سے صہیونی اجرتی قاتل تنگ آکر فوج سے فرار بھی اختیار کرتے ہیں۔ مگر انہیں اس کی پاداش میں جیلوں میں ڈالا جاتا ہے۔ جیلوں سے نکالنے کے لیے بھی ان کی سپورٹ کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ یوں یہ اجرتی قاتل ہراعتبار سے صہیونی ریاست کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں۔
صہیونی لابی نے خبردارکیا ہے کہ اجرتی قاتل اہلکاروں کو ہمہ نوع مشکلات کا سامنا ہے۔ وہ بھوکے رہتےہیں۔ بہت سے صہیونی اجرتی قاتلوں کو تنخواہیں بھی نہیں دی جاتیں۔ وہ کاغذ، روٹی کے ٹکڑے اور کوڑے کرکٹ سے اشیاء جمع کرکے اپنے Â پیٹ کی آگ بھجاتے ہیں۔ جب اسرائیلی فوج کو ان کی ضرورت پڑتی ہے تو انہیں کسی محاذ پر بھیج دیا جاتا ہے۔ جب ضرورت نہیں رہتی تو انہیں لات مار کر نکال دیا جاتا ہے۔
اجرتی قاتلوں کے معاونت کار
ذیل میں ان صہیونی اُجرتی قاتلوں کی پرورش کرنے والے گروپوں کا تعارف کیا جاتا ہے۔
ونگ پروگرام
یہ تنظیم ’کیرین میراج اسرائیل‘ نامی Â تنظیم ہی کی طرح کا ایک گروپ ہے جو صہیونیوں کی سماجی بہبود میں سرگرم ہے۔ بیرون ملک سے نقل مکانی کرکے آنے والے صہیونیوں کو یہ گروپ مالی مدد فراہم کرتا ہے۔ یہ تنظیم نہ صرف فلسطین میں آئے صہیونیوں کو مالی مدد دیتی ہے بلکہ اس کے پروجیکٹ تین حصوں پر مشتمل ہیں۔ جن میں بیرون ملک سے صہیونی نوجوانوں Â کی فلسطین منتقلی، فلسطین لائے گئے صہیونیوں کی رہنمائی اور ملازمت کے لیے مختلف تکنیکی کورسز کا Â قیام شامل ہیں۔ اس دوران یہ گروپ ان اجرتی قاتلوں کو حسب ضرورت مالی مدد بھی کرتا ہے اور ان کی فوج میں بھرتی میں بھی معاونت کی جاتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ‘ونگ پروگرام‘ نو آباد صہیونیوں کو فلسطین میں زندگی گذارنے کے لیے ان کی رہنمائی اور مدد کرتا اور انہیں صہیونی سماج میں شامل کرنے کے لیے تعاون کرتا ہے۔ ایک سال میں یہ تنظیم 12 مختلف کورسز کراتی ہے۔
اجرتی قاتل فوجی مرکز
اس تنظیم کو اس کے بانی ’مائیکل لیون‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ یہ تنظیم فوج کے ساتھ صلاح مشورے کے بعد باہر سے لائے گئے صہیونیوں کو فوج میں بھرتی کرانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ فوج میں بھرتی ہونے سے سروس ختم ہونے تک یہ تنظیم صہیونیوں کی رہنمائی کرتی ہے۔ انہیں ضرورت کے مطابق تعلیم فراہم کی جاتی ہے اور مختلف مواقع کے لیے ضروری سامان مہیا کیا جاتا ہے۔
یاد رہے کہ مائیکل لیون امریکا کی چھاتہ بردار کا سابق فوجی ہے جو اسرائیل میں آنے کے بعد لبنان کے خلاف لڑی گئی دوسری جنگ میں شامل رہ چکا ہے۔
’بڑا بھائی‘
یہ تنظیم بھی صہیونی آباد کاروں کو مادی اور معنوی امداد سمیت ہرقسم کی سپورٹ مہیا کرتا ہے۔ سابق اور موجودہ فوجیوں کی رہنمائی کرتا ہے۔ اس کے نام سے اسرائیلی ٹی وی چینلوں پر ’بڑا بھائی‘ کے عنوان سے ایک سیریز بھی نشر کی جا چکی ہے۔ اس میں بیرون ملک سے صہیونیوں کو فلسطین میں لانے کی ترغیبات دی گئی تھیں۔
زفیکا لیوی
یہ تنظیم نے اپنے بانی کے نام سے مشہور ہے۔ ’زفیکا لیوی‘ ایک صہیونی اجرتی قاتل فوجی ہے جو حال ہی میں اسرائیل سے سرکاری تمغہ بھی حاصل کرچکا ہے۔ یہ صاحب اسرائیلی فوج کی چھاتہ بردار یونٹ اور ریزرو فوج میں بھی رہ چکا ہے۔
‘نیفش بی نیفوش‘
یہ ایک غیر منافع بخش صہیونی تنظیم ہے جو شمالی امریکا اور دوسرے ملکوں سے تعلق رکھنے والے ان صہیونیوں کو فلسطین میں آباد کرنے میں سرگرم ہے جو انگریزی زبان بولتے ہیں۔ یہ تنظیم سنہ 2002ء میں صہیونی مذہبی پیشوا ’یہوشع فاس‘ اور ٹونی گلبرٹ‘ نےقائم کی تھی۔ اس کا صدر دفتر بیت المقدس میں واقع ہے اور اس کا نصف بجٹ بین الاقوامی صہیونی ایجنسی کی طرف سے دیا جاتا ہے۔
اجرتی قاتل موت کے نشانے پر
عبرانی نیوز ویب پورٹل ’’وللا‘‘ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج میں اجرتی قاتلوں کی حیثیت سے کام کرنے والے فوجیوں کو وہ مراعات حاصل نہیں جو باضابطہ فوجیوں کو دی جاتی ہیں۔ ان اجرتی قاتلوں میں سے 70 صہیونی مختلف صہیونی خاندانوں نے منہ بولے بیٹے بنا رکھے ہیں۔۔ دیگر صہیونی اجرتی قاتل’ سپاہیوں کی معاون‘ ایک تنظیم کے قائم کردہ 97 فلیٹس مین رہتے ہیں۔ حیفا شہر میں قائم ایک فلیٹ میں چھ اجرتی قاتلوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔
اسرائیلی فوج میں ملازمین کے امور کے ایک سینیر عہدیدار نے بتایا کہ ہم اجرتی قاتلوں کے لیے رہائش کا انتظام نہیں کرسکتے۔ ان لوگوں کے مطالبات بہت زیادہ ہیں۔ ان میں سے ہر صہیونی خاندان کے ساتھ نہیں رہتا اور نہ ہی وہ کسی خاندان کی سرپرستی میں ہے۔ آزاد حیثیت سے فوج میں بھرتی ہونے والے صہیونی خود ہی آزاد زندگی گذارنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مالی مسائل کا شکار رہتے ہیں۔
خیال رہے کہ اسرائیلی فوج کی طرف سے جاری کردہ اعدادو شمار میں بتایا گیا ہے کہ فوج میں 2500 امریکی رضاکاربھی بھرتی کیے گئے ہیں۔ ان فوجیوں نے سنہ 2014ء کی غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی جنگ کے دوران محاذ جنگ میں خود بھی حصہ لیا تھا۔ یہ اہلکار اب بھی فوج کے ’غرزہ بریگیڈ‘ کے ماتحت ہیں۔
امریکی وزارت خارجہ کی طرف سے بھی یہ رپورٹ جاری کی گئی ہے کہ تین سال قبل غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی جنگ کے دوران امریکا کے دو فوجی بھی مارے گئے تھے۔
کیلیفورنیا ریاست کے مکس شنانبرگ اور ٹیکساس کے نسیم شون کرملی اسرائیلی فوج کی گولانی یونٹ میں تھے۔ علاوہ ازیں ایک فرانسیسی شہریت رکھنے والا اجرتی قاتل جس کی شناخت گورڈان بن سمحون کے نام سے کی گئی تھی غزہ کی پٹی میں لڑائی کے دوران مجاھدین کے ہاتھوں ہلاک ہوچکا ہے۔