رپورٹ کے مطابق مسافروں کی منتقلی کا کام ان کی انسانی شرافت کے احترام پر مبنی ہونا چاہئے، ان کے انسانی حقوق کی پامالی سے پرہیز کرنا چاہئے اور ہوائی اڈے کے بند کمروں میں انہیں قید کرنا، ان کی آمد و رفت پر پابندی لگانا، ان کی تذلیل آمیز تلاشیاں لینا اور قید سے پیدا ہونے والے مسائل شہری اور سیاسی حقوق کی کھلی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں دیکھنا یہ ہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ اس طرح کے برتاؤ سے کون خوش ہوتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق غزہ کے نائب وزیر خارجہ غازی حمد نے بھی کہہ چکے ہیں کہ آج تک مصری بہانہ جوئی کرتے تھے کہ چونکہ رفح گذرگاہ کا انتظام رام اللہ میں تعینات خود مختار اتھارٹی کے ہاتھ میں نہیں ہے اسی لئے یہ گذرگاہ بند رہتی ہے لیکن اب جبکہ اس گذرگاہ کا انتظام خود مختار اتھارٹی کے سپرد کیا گیا ہے اس گذرگاہ کو ہمیشہ کے لئے کھلا رہنا چاہئے تا کہ فلسطین کے مظلوم اور ستم زدہ عوام کے مصائب اور مشقتوں میں کمی آئے۔
لمحہ فکریہ یہ ہے کہ مغربی ایشیا میں جب اسلامی مقاومت محاذ کا مسئلہ زیر بحث ہوتا ہے تو عرب حکمران علاقے کے سنی مسلمانوں کی قیادت کے دعویدار بن جاتے ہیں لیکن جب صیہونی ریاست کی خوشنودی مقصود ہو تو فلسطین کے سنی مسلمانوں کے ساتھ ذلت آمیز سلوک رکھا جاتا ہے، شام کے سنی مسلمانوں کا قتل عام کیا جاتا ہے اور انہیں دہشتگرد بھیڑیوں کے سپرد کیا جاتا ہے اور جب صیہونی ریاست اور امریکہ و یورپ کی ظالمانہ رویوں پر اسلامی جمہوریہ ایران کی کامیابی علاقے کی رائے عامہ کو خوش کردیتی ہے تو یہ حکام کہتے ہیں کہ صیہونی ریاست ہمارے لئے ایران سے بہتر ہے لیکن یہ غافل حکمران شاید اس بات کے ادراک سے عاجز ہیں کہ دنیا بھر کے مسلمان اب آنکھیں بند کرکے ان کٹھ پتلی حکمرانوں کی باتوں سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ وہ زمینی حقائق کو دیکھتے ہیں اور کسی بھی صورت میں ان لوگوں کے دوست نہیں بنیں گے جن کے بارے میں قرآن نے فرمایا ہے کہ یہ مؤمنوں کے بدترین اور شدید ترین دشمن ہیں اور یہ تم مؤمنوں سے کبھی راضی نہیں ہونگے سوائے اس وقت کہ جب تم ان کے مکتب کی پیروی نہ شروع کرو۔
مسلمان آج قرآنی آیات کی روشنی میں عرب حکمرانوں کی کارکردگی کا تجزیہ کرتے ہیں اور وہ اس سوال کا جواب ڈھونڈ رہے ہیں کہ جو یہودی دین چھوڑنے کی صورت میں ہی مسلمانوں سے راضی ہوسکتے ہیں وہ ان حکام سے کیوں راضی و خوشنود ہیں۔ بشکریہ نیوز نور