غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) چھ دسمبر 2017ء کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیے جانے کے بعد صیہونی ریاست نے سیاست اور فیلڈ کی سطح پر کئی دوسرے اقدامات کیے اور حالات کو اپنے حق میں ساز گار پا کر فلسطین پراپنے غاصبانہ قبضے کی توسیع کی سازشیں تیز کردیں۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل موجودہ حالات میں سیاسی معاملے کو آگے بڑھانے کی بجائے موجودہ صورت حال کو جوں کا توں رکھنے کا خواہاں ہے۔تجزیہ نگار عماد ابوعواد نے کہا کہ امریکی صدر کے نام نہاد اور ناقابل قبول اعلان القدس کے بعد صیہونی ریاست نے القدس اورغرب اردن کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی سازش شروع کی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل موجودہ حالات اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے سازگار بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ صیہونی ریاست نہ صرف بیت المقدس بلکہ دریائے اردن کے مغربی کنارے کو عبرانی ریاست میں ضم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
اس طرح صیہونی ریاست غزہ کی پٹی کو ایک الگ تھلگ علاقہ قرار دینے کے لیے کوشاں ہے تاکہ غرب اردن اور غزہ کے درمیان کوئی ربط باقی نہ رہے اور نہ ہی اسرائیل اس کا ذمہ دار ہو۔ مقصد اس سارے کھیل کا یہ ہے کہ تنازع فلسطین کے دو ریاستی حل کو ختم کردیا جائے۔
ابو عواد نے کہا کہ اسرائیل موجودہ حالات میں کسی قسم کی جنگ یا محاذ آرائی کے لیے تیار نہیں ہے۔ اسرائیل کو اندازہ اور احساس ہے کہ فلسطینÂ اور اسرائیل کی امن و امان کی موجودہ صورت حال کسی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان سیاسی عمل کے معطل ہونے کو بھی اسرائیل کے اپنے حق میں استعمال کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صیہونی ریاست فلسطینی اتھارٹی سے کسی قسم کی بات چیت کے بجائے مقبوضہ عرب علاقوں میں دھڑا دھڑ صیہونی بستیاں تعمیر کررہا ہے۔
فرصت کا موقع
نہ صرف فلسطین کے موجودہ سیاسی حالات صیہونی ریاست کے لیے کافی سازگار ہیں بلکہ علاقائی اور عالمی صورت حال بھی صیہونی ریاست کی ’فیور‘ میں ہے۔
فلسطینی تجزیہ نار صلاح الدین العوادہ کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان القدس کے بعد کافی حد تک اسرائیل کے لیے علاقائی آسانیاں پیدا ہوئی ہیں۔ ٹرمپ اور ان کی انتظامیہ بھر صورت اسرائیل کی ہر طرح سے مدد کررہی ہے۔ ماضی میں ایسی کوئی امریکی حکومت نہیں گذری جس نے اسرائیل کی اس حد تک حمایت کی ہو۔
العوادہ کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کے بعض فیـصلے اور اقدامات صیہونی ریاست کو اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو آگے بڑھانے کا نیا موقع فراہم کررہے ہیں۔ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قراردینے کے بعد صیہونی ریاست نے یہ سمجھ لیا ہے کہ القدس کی اس کی ملکیت ہے اور وہ نہ صرف القدس کو فلسطینیوں کے وجود سے خالی کرے گا بلکہ مسجد اقصیٰ کو زمانی اعتبار سے تقسیم کرنے کے بعد وہاں پر ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیے بھی سرگرمیوں کا آغاز کرے گا۔
تجزیہ نگار العوادہ کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات اسرائیلی تاریخ کے لیے سب سے زیادہ سازگار ہیں۔ عرب ممالک کے ساتھ بھی اسرائیل کی قربت بڑھ رہی ہے۔ اخوان المسلمون، اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ اور ایران جیسی قوتوں کے خلاف خلیجی ممالک سوائے چند ایک کے ایک ہی مؤقف رکھتے ہیں۔ اسرائیل کو ایسے ہی ممالک کی ضرورت ہے جو حماس، اخوان اور ایران کے خلاف بولیں یا عملی کارروائیوں میں حصہ لیں۔
صیہونی ریاست موجودہ حالات کو اپنے مقاصد کی توسیع پسندی کے لیے استعمال کرے گا۔ امریکا کی غیر مشروط حمایت اور مدد سے عرب ممالک کو فلسطینی مزاحمتی تنظیموں اور ایران کے خلاف جنگ پر اکسانے کی پالیسی پربھی عمل درآمد جاری رکھے گا۔
العواودہ کا کہنا ہے کہ امریکا کی حمایت اور مدد، عرب ممالک کی طرف سے خفیہ اتحاد، فلسطینیوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات، اور فلسطینی تنظیموں کے خلاف خلیجی حکومتوں کی بڑھتی سرد مہری وہ عوامل ہیں جو اسرائیل کو اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو آگے بڑھانے میں مدد کرہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نہ صرف غرب اردن پر قبضے کی منصوبہ بندی کررہا ہے بلکہ صیہونی ریاست امریکی صدر ٹرمپ کی صدی کی ڈیل کی اسکیم کی آڑ میں غزہ کے علاقے کو بھی فوجی طاقت سے چھیننے پر غور کررہا ہے۔ صیہونی ریاست غزہ کو عراق کے شہر موصل کی طرز پر ایک وسیع فوجی کارروائی میں قبضے کے لیے پہلے بھی غور کررہاہے تاکہ غزہ کی فلسطینی آبادی وہاں سے جزیرہ نما سیناء کی طرف فرار ہوجائے۔
اس کے ساتھ ساتھ اسرائیل ایران کے گرد گھیرا تنگ کرنے اور ایران کو تنہا کرنے کے ساتھ ساتھ ترکی کو سرحدی جھڑپوں میں الجھائے رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔