(روزنامہ قدس ۔آن لائن خبر رساں ادارہ) صیہونی عقوبت خانوں میں زندگی کے دو عشرے گزارنے والا صبر استقامت کا پہاڑ عبدالناصر عیسیٰ صیہونی زندانوں میں بدترین تشدد کے باوجود صیہونی حکام کے سامنے تن کر کھڑا ہے اور زندگی کی بھیک مانگنے کے بجائے ساری زندگی اسرائیلی عقوبت خانوں میں گزارنے کیلئے تیار ہے۔
مجاھد عبدالناصر عیسیٰ اکتوبر 1968ء کو غرب اردن کے شمالی شہر نابلس میں ایک حریت پسند گھرانے میں پیدا ہوئے، فلسطین پر اسرائیلی قبضہ کے خلاف جدوجہد نے ان کے گھرانے کو ان کے آبائی گھر سے محروم کردیا جس کو صیہونی حکام نے غیر قانی قرار دیتے ہوئے مسمار کردیا جس کے بعد عبدالناصر اور ان کا گھرانہ نابلس میں بلاطہ پناہ گزین کیمپ میں سکونت پذیرہو ا۔
عبدالناصر نے اپنی زندگی کے اوائل ہی میں اسرائیلی ریاست کے مظالم کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں حصہ لینا شروع کردیا۔ سنہ 1976ء میں فلسطین میں یوم الارض کے موقع پرعبدالناصر اور ان کی ہمشیرہ بھی احتجاجی ریلی میں شریک تھیں۔
قابض فوج نے گولیاں مار کر اس کی ہمشیرہ کو زخمی کردیا۔ستمبر 1982ء کو عبدالناصر نے ایک ریلی میں شرکت کی تو صہیونی فوج نے ان پر براہ راست گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں اس کی ران میں گولی لگی اور وہ شدید زخمی ہوگئے۔
1983ء میں وہ انہوں نے اخوان المسلمون میں شمولیت اختیار کرلی۔ بلاطہ پناہ گزین کیمپ میں انہوں نے شہید جمال منصور کے ہاتھ پر بیعت کی۔سنہ 1986ء کو عبدالناصر عیسیٰ کو پہلی بار اسرائیلی فوج نے حراست میں لیا۔ اس پر اسرائیل کے خلاف نفرت پھیلانے والا لٹریچر تقسیم کرنے کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا۔ اسے فلسطینی رہ نما جمال منصور کے ساتھ الاسطبل کے نام سے مشہور الفارعہ نامی بدنام زمانہ حراستی مرکز میں قید کیا گیا۔
1988ء میں انہوں نے جنین اور نابلس میں اسلامی تحریک مزاحمت’حماس’ کا نیٹ ورک قائم کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ ان کے بھائیوں نے اور کئی دوسرے اقارب نے بھی حماس میں شمولیت اختیار کی۔ انہوں نے حماس اور جماعت کے جہادی پیغام کو عام کرنے کی کوششیں جاری رکھیں، یہاں تک کہ 1990ء میں انہوں نے نابلس میں قائم جیل میں بھی جماعت کے کارکنوں کو منظم کرنے کی کوششیں شروع کردیں۔19 اگست 1995ء کو صہیونی فوج نے انہیں ایک بار پھر حراست میں لیا۔ ان پر حماس سے تعلق اور اسرائیل کے خلاف مزاحمتی کارروائیوں میں حصہ لینے کی پاداش میں مقدمہ چلایا گیا اور صہیونی عدالت نے انہیں تا حیات عمر قید کی سزا سنائی۔