غزہ – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) شام میں سنہ 2011ء کے بعد سے جاری خانہ جنگی نے سیکڑوں اور ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں اور کروڑوں افراد کو متاثر کیا ہے۔ شام کی خانہ جنگی اور اس کے وابستہ واقعات اکیسویں صدی کا بدترین المیہ ہے اور لگتا ہے کہ یہ المیہ ابھی اپنے ساتھ اور کئی مصائب وآلام کو لیے مزید کئی سال تک جاری رہے گا۔
Â
دوسری جانب فلسطین کا گنجان آباد علاقہ غزہ کی پٹی ہے۔ یہ علاقہ سنہ 2007ء کے بعد سے صیہونی ریاست کی بدترین انتقامی سیاست کی تحت معاشی ناکہ بندی کا شکار ہے۔
شام اور غزہ کے مسائل قریبا ایک ہی جیسے ہیں۔ اس کی ایک تازہ اور زندہ مثال ایک فلسطینی پناہ گزین خاتون ہیں جو شام کے شہر درعا سے اپنے بچوں کے ہمراہ اپنی زندگی کولاحق خطرات کے پیش نظر کچھ عرصہ پیشتر غزہ کی پٹی آئیں مگر اس کے حالات پر ’آسمان سے گرا کھجور پے اٹکا‘ والی مثل صادق آتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق 41 سالہ عامر فورۃ کی فیملی کئی سال تک شام کے شہر درعا میں مقیم رہی۔ شام میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد انہوں نے غزہ کی پٹی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا۔ غزہ آمد کے بعد عامر فورہ کوغزہ میں عارضی ملازمت بھی مل گئی مگر سنہ 2014ء کو غزہ کی پٹی پر مسلط کی گئی اسرائیلی جنگ کے بعد ان کی زندگی کو ایک نئی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ نئی پریشانی ان کی اہلیہ خلود الحمود کی ایک خطرناک اعصابی بیماری تھی جس نے خلود کو نیم جاں کردیا۔
چالیس سالہ مسز خلود الحمود کا غزہ کی پٹی میں مختلف اسپتالوں میں علاج کرانے کی کوشش کی گئی۔ ڈاکٹروں کی تشخیص کے بعد پتا چلا کہ الحمود ایک خطرناک اعصابی بیماری کا شکار ہے۔ اس کے پہلو مفلوج ہوگئے ہیں اور اسے اب سانس لینے میں بھی دشواری کا سامنا ہے۔ ڈاکٹروں نے اسے بیرون ملک علاج کے لیے لے جانے کی تجویز پیش کی۔
بسترعلالت پر
خلود الحمود پانچ بچوں کی ماں ہے۔ خطرناک اعصابی بیماری کے باعث وہ مستقل بسترعلالت پر ہے، اس کاÂÂ شوہر عامر فورۃ اور بچے بھی اس کے ساتھ اسپتال ہی میں اقامت پذیر ہیں۔
الفورہ نے کہا کہ ہم پانچ سال قبل غزہ لوٹے جب کہ میری پیدائش شام کے شہر درعا میں ہوئی تھی۔ ہمارا پورا خاندان پناہ گزین کی حیثیت سے رہ رہا تھا۔ شام میں خانہ جنگی سے فرار کے بعد ہم مصر آئے۔ اس کے بعد وہاں سے غزہ کی پٹی آگئے۔ ہمیں بہت سے لوگوں نے یورپی ملکوں کی طرف ھجرت کرنے کی تجویز دی مگر ہم نے اپنے ملک میں آنے کو ترجیح دی۔
غزہ کی پٹی میں سنہ 2014ء میں اس کی اہلیہ کے جسم میں اچانک تکلیف شروع ہوئی۔ مقامی ڈاکٹروں کے پاس چکر لگنے شروع ہوگئے مگر ڈاکٹر اس کی بیماری کی تشخیص سے قاصر تھے۔ دوسری طرف خلود الحمود کی حالت بہ روز بگڑتی جا رہی تھی اور اس کے لیے اپنے سہارے پر نقل وحرکت کرنا بھی ممکن نہ رہا۔ اس کے پہلو شل ہونا شروع ہوگئے۔ اب اس کے چاروں اطراف شل ہوچکے ہیں۔
فورۃنے بتایا کہ ڈاکٹروں نے طویل غور علاج معالجے کے دوران پتا چلایا کہ اس کی بیوی کو ایک خطرناک اعصابی بیماری لاحق ہے جس کا غزہ کی پٹی میں کوئی علاج نہیں۔ بڑی مشقت سے ہم سفر کرکے اندرون فلسطین کے ایک اسپتال پہنچے۔
ڈاکٹروں نے علاج کا آغاز الحمود کی گردن میں ایک سوراخ سے کیا تاکہ اسے مصنوعی آکسیجن لگائی جاسکے۔ یہ آکسیجن بجلی پرکام کرتا ہے۔ اس طریقہ علاج سے مریضہ کا بات کرنا اور کھانا پینا اور مشکل ہوگیا۔
کچھ ہفتے وہاں گذرانے کے بعد ہمیں دوبارہ غزہ بھیج دیا گیا۔ فیملی کے مالی حالات خراب ہوگئے۔ وہ خود بھی بے روزگار ہوگیا۔ اب وہ مجبورا اپنے پانچ بچوں کے ساتھ غزہ کے الزھراء اسپتال میں ٹھہرا ہوا ہے۔ اسپتال انتظامیہ نے مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے اور اس کے بچوں کو ایک کمرہ دیا ہے۔
زندگی خطرے میں
جس کمرے میں فورۃ کے بیوی بچے ٹھہرے ہیں اس میں دو اور خاندان بھی ایسے مشکل حالات کا سامنا کررہے ہیں۔ وہ دن بھر اپنی بیوی کو لگے مصنوعی نظام تنفس (آکسیجن) کی دیکھ بحال کرتا ہے جب کہ اس کے بچوں کی تعلیم کا وقت بھی ضائع ہو رہا ہے۔
فورۃ کا کہنا ہے کہ چند اس کی بیوی بجلی پر چلنے والے آکسیجن سسٹم پر زندہ ہے۔ اگر چند منٹ کے لیے اسپتال کی بجلی چلی جائے تو اس کی موت واقع ہوسکتی ہے۔
ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ خلود حمود کے خون میں ایک خطرناک وائرس شامل ہو چکا ہے جس کاÂÂ علاج بلڈ پلازما فریزر کی مدد سے خون صاف کرنے سے ممکن ہے اور یہ طریقہ علاج غزہ میں موجود نہیں۔
ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ اس کا علاج اسرائیلی اسپتالوں میں ممکن ہے۔ اس نے ’ایخلوف‘ اسپتال میں علاج کے لیے درخواست دی ہے مگر اسے ابھی تک کوئی جواب نہیں مل سکا۔