عرب تشخص
جغرافیائی محل وقوع کے اعتبار سے پرانےبیت المقدس کے باب الخلیل کے نزدیک حارۃ النصاریٰ میں واقع ہے۔ بازار کے اندر سے ایک راستہ گذرتا ہے جو ایک طرف تو شہرمیں عیسائیوں کی عظیم عبادت گاہ ’القیامہ چرچ‘ کے ساتھ ملاتا ہے تو دوسری طرف وہ مسجد اقصیٰ اور دیوار براق سے جا ملتا ہے۔
’بازار علون‘ کو بیت المقدس کے صدیوں پرانے بازاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ بازار شہر میں اسلامی اور عرب تشخص کی علامت ہیں۔ مقامی شہریوں کے ساتھ ساتھ سیاحوں کے لیے بھی یہ ایک پرکشش مقام ہے۔ اندرو اور بیرون ملک سے آئے سیاح اور شہری اس بازار سے تحایف خرید کرنے کو باعث اعزاز خیال کرتے ہیں ہر شخص اپنی بساط کے مطابق یہاں سے خریدار کرتا ہے۔
یہاں آنے والے سیاحوں اور فلسطینی شہریوں کے لیے باب الخلیل کے قریب ایک پارکنگ بھی ہے اور بازار چوک اور حارۃ النصاریٰ کو باہم ملانے کے لیے راستے بھی موجود ہیں۔
وجہ تسمیہ
’سویقہ علون‘ بازار کو یہ نام وہاں کی ایک تاریخی مسجد کی وجہ سے دیا گیا۔ جامع مسجد ’سویقہ علون‘ خلافت عثمانیہ کے دور میں بنائی گئی۔ پرانے وقتوں میں اس کا نام مسجد حمزہ بن عبدالمطلب تھا اور یہ مسجد اقصیٰ کی طرف باب الخلیل کے دائیں جانب ہے۔ باب الخلیل اور مسجد سویقہ علون کے درمیان 75 میٹر کا فاصلہ ہے۔
سپریم اسلامی کونسل کی دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مسجد سویقہ علون کی تعمیر نو سنہ 1945ء میں کی گئی۔ اس کے لکڑی کا نیا گیٹ لگایا گیا اور باضابطہ طور پر الشیخ کامل مبارک کو اس کا پیش امام اور خطیب مقرر کیا گیا۔
مرمت کے تین سال بعد مسجد کو برقی قمقموں سے روشن کیا گیا مگرتین عشروں کے بعد یہ معلوم ہوا کہ اس میں دوبارہ بجلی کی وائرنگ کی ضرورت ہے۔
مسجد تک پہنچنے کے لیے دو متوازی راستے ہیں۔ ایک راستہ سات سیڑھیوں کے ذریعے مسجد کی دہلیز تک پہنچتا ہے۔ اس کی چوڑائی ایک میٹر اور لمبائی تین میٹر ہے۔ دوسرا راستہ سیدھا مسجد کے مصلے کے قریبی دروازےسے ملتا ہے۔ ہاں پر وضو کے لیے پانی کی ٹینکی اور وضو خانہ بھی موجود ہے۔ مسجد کی سطح ہموار ہے اور اس سے تھوڑی سی اونچائی پراس کا مینار دیکھا جاسکتا ہے۔
بازار سویقہ علان کی تاریخ
ایک مقامی فلسطینی کاروباری شخصیت نے سویقہ علون کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ یہ بازار کسی دور میں اردنی فوج کا مرکز تھا۔ اردنی فوج باب الخلیل کے قریب واقع قلعے میں قیام پذیر تھی اور فوجی اس بازار سے گذر کر آتے جاتے اور اسی بازار سے خریداری کرتے تھے۔
باب الخلیل میں موجود فلسطینیوں کی دکانوں سے ہول سیل میں اشیا فروخت کی جاتی اور دوسرے علاقوں کےدکاندار بھی وہاں سے خریداری کرتے۔ زیادہ تر پرانے تاجروں اور دکانداروں میں آرمینین تھے جو سونا رنگنے، کے علاوہ کتب فروش، سبزی فروش، گھڑی ساز اور صراف تھے۔ ان میں کباریتی نامی خاندان آج بھی اردن میں مقیم ہے۔
ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ جس طرح مسجد اقصیٰ، القیامہ چرچ اور القدس کے دیگر تاریخی، مذہبی اور مقدس مقامات کے دفاع کے لیے موثر مہم چلانے کی ضرورت ہے اسی طرح سویقہ علون بازار کےعربی تشخص کو بچانے اور وہاں کی مقامی فلسطینی کاروباری برادری کو معاشی تحفظ دینے کے لیے بھی عالمی اداروں کے تعاون کی اشد ضرورت ہے تاکہ بیت المقدس کی اس دم توڑتی شناختی علامت کو صہیونیت، یہودیت اور عبرانیت سے بچایا جا سکے۔
بہت سے لوگ بیٹھ کر کام کرنے کو اپنے لیے سہولت اور نعمت خیال کرتے ہیں مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ دیر تک مسلسل بیٹھے رہنا باعث ہلاکت ہے کیونکہ دیر تک بیٹھنے سے سالانہ ساڑھے تین لاکھ کے قریب لوگ لقمہ اجل جاتے ہیں۔