فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ’معسکرسالم‘ سول ایڈمنسٹریشن، طابو ہیڈکواٹر، پولیس سینٹر، ملٹری کورٹ اور ملٹری رابطہ کارکے دفاتر پر مشتمل ہے مگر یہ جیل سب سے زیادہ فلسطینی بچوں کی’شکار گاہ‘ کے طور پر مشہور ہے۔
سالم صیہونی فوجی جیل کو فلسطینی بچوں کے لیے شکار گاہ اس لیے بھی کہا جاتا ہے کہ وہاں پر فوجی عدالت میں پیشی کے موقع پر پش کیے جانے والے فلسطینیوں کے اقارب بھی وہاں آتے ہیں مگر اپنے اقارب کی پیشی کے مواقع پر آنے والےفلسطینیوں کو بھی بغیر کسی الزام کے دھرنا لینا اب صیہونی فوج کا دلسپند مشغلہ بن چکا ہے۔
اس کی تازہ مثال کوئی ایک ماہ قبل پیش آئی جب جنین سے تعلق رکھنے والے 17 سالہ محمد شامی یوسف شامی اور عدباللہ ھلال عبدالحلیم اپنے ایک دوست کی پیشی کے موقع پر عدالت گئے تو اس کے بعد وہ واپس نہیں لوٹے۔ صیہونی فوج نے دونوں کو بغیر کسی الزام کے حراست میں لیا اور اس کے بعد سے وہ غائب ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ عمر عبدالکریم جرار کے ساتھ پیش آیا جب سالم فوجی عدالت میں اپنے ایک عزیز کی پیشی کے موقع پر آنے پر اسے حراست میں لے لیا گیا۔ اہل خانہ کو جرار کے بارے میں صرف اتنا پتا چلا ہے کہ اسے حراست میں لے لیا گیا ہے۔
انسانی حقوق کے مندوب محمد کمنجی کا کہنا ہے کہ عدالت کے احاطے یا اس کے گیٹ سے فلسطینیوں کو گرفتار کرنا انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ آپ کسی معصوم اور بے گناہ شہری کو اسے راہ چلتے ہوئے گرفتار کرلیں۔
ان کا کہنا ہے کہ صیہونی ریاست نے فلسطینی بچوں کو اغواء کرنا اپنا پسندیدہ مشغلہ بنا رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی بچوں کے بغیر کسی الزام کے اغواء کی وارداتیں کوئی نئی بات نہیں۔ اسرائیلی فوج فلسطینی بچوں کو عدالتی احاطوں کے علاوہ اسکولوں سے بھی اٹھالیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ بچوں کے اغواء کے بعد ان کے والدین کو کئی کئی روز تک ان کی گرفتاری کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جاتا۔ ایسے زیادہ تر بچوں کی عمریں پندرہ سے سترہ سال کے درمیان ہوتی ہیں۔ صیہونی فوج فلسطینی بچوں کو گرفتار کرنے انہیں اپنے جال میں پھنسانے کے لیے خفیہ کیمروں کا سہارا لیتی ہے۔ جگہ جگہ لگائے گئے خفیہ کیمروں کی مدد سے راہ چلتے فلسطینی بچوں کو بغیر کسی وجہ کے حراست میں لے لیا جاتا ہے۔
خیال رہے کہ ’سالم ملٹری کیمپ‘ سنہ 1948ء میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ کیمپ جنین شہر کی حدود میں ہے۔ اس کے لیے سنہ 1948ء کی جنگ میں غصب کی گئی سالم قصبے کی اراضی رکھی گئی ہے۔ یہ نام نہاد فوجی جیل مقامی فلسطینی شہریوں کے لیے ہر وقت سرپر لٹکتی تلوار کی مانند ہے۔
کھیل کود بھی جرم بن گیا
’سالم‘ کیمپ کو زبوبہ فلسطینی قصبے کے باشندوں اور دیگر قصبوں کے بچوں کے لیے ہمہ وقت خطرہ ہے۔ صیہونی فوج نے حال ہی میں کم عمر بچوں احمد ، علی نیاز جرادات، نور فواد جرادات، محمد سعید جرادات اور کئی دوسرے بچوں کو بغیر کسی جرم کے حراست میں لیا اور وہ اب تک پابند سلاسل ہیں۔
ایک فلسطینی بچے نے کہا کہ آپ سالم کیمپ کے اطراف میں کھیل نہیں سکتے۔ اگر کوئی بچہ کیمپ کے قرب وجوار میں کھیلے گا تو اسے گرفتاری،تشدد اور دیگر کئی انتقامی حربوں اک سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ایک مقامی شہری علی صبیحات نے بتایا کہ سالم کیمپ کے اطراف میں ہمہ وقت اسرائیلی فوج حرکت میں رہتی ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا اگر کوئی بچہ فوجی کیمپ پر پتھر پھینک رہا ہے تو اس کا رد عمل اس قدر شدید ہوسکتا ہے کہ اسے گرفتار کرکے کئی کئی ہفتوں تک بدترین اذیتوں کا نشانہ بنایا جائے۔