جنین ( فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) سنہ 1948ء کے دوران جب ارض فلسطین پر قابض اور غاصب صیہونی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس وقت کے عینی شاہدین فلسطینیوں میں زیادہ تر اب انتقال کرچکے ہیں۔ غریب الوطنی اور صیہونیوں کے مظالم کا دکھ دلوں میں رکھنے والے جو فلسطینی زندہ ہیں وہ اس کرب اور قیامت کو نہیں بھلا سکے۔
مسلح صیہونی جتھوں کےحملوں کے باعث ھجرت پر مجبور ہونے والوں میں ایک فلسطینی خاتون الحاجہ خیریہ اسعد عبدالرحمان وھدان حنون بھی ہیں۔ انہوں نے جبری ھجرت کے واقعات بیان کیے۔خیریہ عبدالرحمان حنون اس وقت غرب اردن کے شمالی شہر جنین میں ایک پناہ گزین کیمپ میں ہیں۔ انہیں اس بات کا دکھ ہے وہ زندگی کا ایک بڑا حصہ اپنے آبائی شہر سےدور مختلف کیمپوں میں کاٹنے پر مجبور ہوئیں مگر اپنے پوتوں اور نواسوں کو یہ بات فخر سے بتاتی ہیں کہ جب صیہونی جتھوں ان کے گھروں پر کیڑے مکوڑوں اور ٹڈل دل لشکر کی طرح یلغار کی تو اس کا مقابلہ کرنے والوں میں وہ بھی شامل تھیں۔
الحاجہ خیریہ نے بتایا کہ ان کاÂ آبائی شہر زرعین تھا، النکبہ کے سال سے قبل جب مسلح صیہونی دہشت گردوں نے آس پاس کی بستیوں کا صفایا کرنے کے بعد ان کے قصبے پر دھاوا بولا تو پہلے ساری آبادی نے ہتھیار ڈالنے کے لیے سفید پرچم لہرانے سے انکار کردیا۔
انہوں نے بتایا کہ مسلح صیہونیوں کی آمد سے چند روز قبل ہمارے پاس ان کی طرف سے پیغام رساں بھیجے گئے جنہوں نے ہمیں کہا کہ ہم صیہونیوں کے ساتھ سفید پرچم اٹھا کر گھٹنے ٹیک دیں مگر گاؤں کے تمام مردو زن نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ سب نے کہا کہ ہم اپنی اراضی کسی اور کو نہیں دیں گے۔
ھجرت کی المناک یادیں
الحاجہ خیریہ نے بتایا کہ ہمارے انکار پر صیہونیوں کے مسلح جتھے’ہاگانا‘نے زرعین کی طرف آنے والی ریلوے لائن پرگھات لگا کر حملہ کیا اور اس میں سوار سیکڑوں نوجوانوں کو اتار کر ذبح کردیا گیا۔ اس واقعے نے زرعین کی آبادی کو مزید مشتعل کردیا مگر ہمارے پاس لڑنے کے لیے کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود ہم ڈٹ گئے۔ جب مسلح صیہونی ان کے گاؤں میں داخل ہوئے تو یہ عصر کا وقت تھا۔ اسرائیلی ٹینکوں پر سوار تھے۔ انہوں نے گاؤں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ گاؤں نے نوجوانوں اور عورتوں نے صیہونیوں پر سنگ باری شروع کردی مگر کچھ ہی دیر میں صیہونی چاروں اطراف سے ان کے گاؤں میں ایک ایک گھر میں کیڑوں کی طرح داخل ہوگئے۔ وہ نوجوانوں کو پکڑتے اور گرفتار کرتے جاتے اور جو مزاحمت کی کوشش کرتا اسے گولی مار کر شہید کردیا جاتا۔ اس دوران کئی خواتین، بچوں ، بوڑھوں اور جوانوں کو خون میں نہلا دیا گیا۔ ہمیں شہید ہونے والوں کے جسد خاکی بھی اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ ہمارے گھروں کو ہمارے سامنے آگ لگا دی گئی۔
اس کے بعد راتوں رات ہمیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر دوسرے علاقوں میں لانے کی کوشش کی گئی۔ اس دوران عرب فوجیوں مزاحمت کی۔ عرب لشکر کی کارروائی مین ہاگانا صیہونی گروپ کا ایک کمانڈر مارا گیا۔ اس واقعے کے بعد صیہونی مافیا پسپا ہوگیا اور ہم نے واپس اپنے گھروں کی طرف پلٹ کر شہید ہونے والوں اور زخمیوں کی تلاش شروع کردی۔
اگلی صبح صیہونیوں کی طرف سے پیغام دیا گیا کہ عرب لشکر اور زرعین کی پوری آبادی وہاں سے نکل جائے ورنہ دیر یاسین کی طرح ایک ایک بچے کو قتل کردیا جائے گا۔ بدقسمتی سے عرب لشکر کو اس کے سربراہ کی طرف سے زرعین سے نکل جانے کے احکامات دیے گئے جس کے بعد ہم بالکل نہتے ہوگئے تھے۔ خیریہ کہتی ہیں ہمارا خاندان جن میں ہماری دادی شامل تھیں الجلمہ کی طرف روانہ ہوگئے جہاں ہماری ایک خالہ رہ رہی تھیں۔
نہ ختم ہونے والی ھجرت
انہوں نے کہا کہ ہم 10 روز الجلمہ میں اپنی خالہ کے پاس رہے۔ وہاں سے ہمارے والد جو اب تک ہم سے نہیں سکے تھے پہنچنے کے بعد ہمیںÂ قباطیہ کے لے آئے۔ صیہونی جتھے ہاگانا نے ہمارا جنین تک پیچھا گیا مگر زرعین کے معرکے میں عراقی فوج نے صیہونیوں کا جم کر مقابلہ کیا۔
الحاجہ خیریہ کا کہنا ہے کہ ہمیں مسلسل دھوکہ دیا جاتا رہا کہ ھجرت کا عرصہ بہت تھوڑا ہے اور ہم جلد ہی اپنے علاقوں اور گھروں کو روانہ کردیے جائیں گے مگر بد قسمتی سے ہمیں واپس نہیں بھیجا گیا اور ھجرت طول پکڑتی چلی گئی۔
ھجرت کے 70 سال گذرنے کے باوجود الحاجہ خیریہ اپنے وطن واپسی سے مایوس نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کی آنے والی نسلیں بھی حق واپسی کی جدو جہد جاری رکھیں گی۔Â اگر ہم واپس اپنے گھروں کو نہیں جاسکے تو کوئی بات نہیں مگر ہماری آنے والی نسلیں ضرور اپنے علاقے آباد کریں گی۔