گرفتاری کے بعد مرشود کو شمالی فلسطین میں دامون جیل میں ڈالا گیا جہاں اسے غیرانسانی سلوک کا نشانہ بنایا گیا۔ گذشتہ روز اسے الجلمہ چیک پوسٹ سے رہا کیا گیا جہاں اس کے اقارب کی بڑی تعداد موجود تھی۔
خیال رہے کہ اسرائیلی فوج نے مرشود کو حوارہ چیک پوسٹ میں طلب کرنے کے بعد 11 مارچ 2018ء کو حراست میں لے لیا تھا۔ مرشود سعودی عرب میں رہتی ہیں اور وہ اپنی ایک ہمشیرہ اور ایک بھائی کے ساتھ تعلیم کے حصول کے لیے نابلس کی النجاح یونیورسٹی میں داخل ہوئے تھے۔
رہائی پانے والی دو شیزہ پیشے کے اعتبار سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ 21 مارچ کو گرفتاری کے بعد اسے الجلمہ حراستی مرکز میں ڈالا گیا۔ کئی روز اسے وہاں پر انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ایک اور حراستی مرکز’بیت تکفا‘ میں اس کے صبر اور ہمت کو آزمایا گیا۔
رہائی کے بعد مرشود نے بتایا کہ اسرائیلی جلاد دوران تفتیش اس سے عجیب وغریب سوال جواب کرتے۔ اسے نفسیاتی طور پر ہراساں کیا جاتا۔جب تھک جاتے تو جسمانی تشدد شروع کردیتے۔ کبھی اس کے بہن بھائیوں کو گرفتار کرنے اور انہیں جیلوں میں ڈالنے کی دھمکیاں دی جاتیں۔ کبھی انہیں بیرون ملک حصول تعلیم کے لیے سفر پر پابندی کی دھمکی دی جاتی۔
علا مرشود نے کہا کہ جب اسے ’بتاح تکفا‘ حراستی مرکز میں لے جایا گیا تو وہاں اس کا طبی معائنہ کیا گیا۔ مگر یہ طبی معائنہ بھی اس کی آنکھوں پر پٹی چڑھا کر کیا گیا۔ اس کے ہاتھ اور پاؤں دونوں باندھے گئے تھے۔ طبی معائنے کے بعد اسے عریاں تفتیش کرنے کا فیصلہ ہوا مگر اس نے جرات اور بہادری کا مظاہرہ کرنے سے اپنا لباس اتارنے سے صاف انکار کردیا۔
پہلے اس سے تفتیش کرنے والوں میں خواتین فوجی اہلکار بھی موجود تھیں مگر بعد میں اسے اسی حراستی مرکز کی ایک دوسری منزل میں لے جایا گیا جہاں گیارہ تفتیش کار موجود تھے۔ ان سب نے اسے باری باری جسمانی، ذہنی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا۔ کبھی چار چار جلاد ایک ساتھ اس سے پوچھ تاچھ کرتے۔
علاء مرشود کا کہنا ہے کہ صیہونی تفتیش کار جلاد کتے اسے سوشل میڈیا پر اس کی سرگرمیوں کے بارے میں استفسار کرتے۔ اس کے فیس بک اور ’ٹوئٹر‘ پر پوسٹ کردہ نصابی مواد پر بھی اعتراض کیا جاتا اور کہا جاتا کہ سوشل میڈیا پر وہ اسرائیل کے خلاف اشتعال انگیز مواد پوسٹ کررہی ہے۔ اس کے سوشل میڈیا پر اپنی کلاس کے کورس کے مواد کو بھی قابل اعتراض اور اشتعال انگیز قرار دیا جاتا۔
کچھ دیر خاموشی کے بعد علاء نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے مشکل مرحلہ اس وقت آیا جب اسے سر سے چادر اتارنے کا کہا گیا۔ مجھے کہا گیا کہ میں حراستی مرکز میں چادر اوڑھنے کے بجائے صرف ایک چھوٹا رومال سر پر رکھوں۔ ہر بار جب تفتیش کی جاتی تو مجھے ایک رومال دیا جاتا اور چادر چھین لی جاتی۔
بتاح تکفا میں پہلے تین روز علاء نے کچھ کھایا پیا نہیں۔ تین روز کے بعد اسے اس کے وکیل سے ملنے کی اجازت دے دی گئی۔ اس کے بعد صیہونی عصافیر’ایجنٹوں‘ کا مرحلہ آیا۔ یہ ایجنٹ قیدیوں کے روپ میں نئے آنے والے اسیران کے ساتھ بہ ظاہر ان کے ساتھ ہمدردانہ بات چیت کرتے ہیں۔ سو انہوں نے بھی علاء کو اپنے طور پر ورغلانے اور بہلا پھسلا کر اس سے راز اگلوانے کی ناکام کوشش کی۔ جب وہ بھی ناکام ہوگئے تو اس کے بعد اسے ’عسقلان‘ جیل میں ڈال دیا گیا۔ وہاں سے پھر بتاح تکفا لے جایا گیا۔
دوران حراست اسے طرح طرح سے ڈرایا دھمکایا اور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا۔ اسے زیرزمین کسی تہ خانے میں ڈالنے کی دھمکی دی جاتی۔ بعض اوقات اسے ایسے تاریک زندان میں ڈالا جاتا جہاں روشنی اور ہوا کا کوئی گذر نہ ہوتا۔ کئی روز اس طرح صبر آزما قید کاٹنے کے بعد اسے ھشارون جیل میں ڈال دیا گیا۔ یہ جیل خواتین قیدیوں اور بچوں کے لیے خاص ہے۔ وہاں اسے ڈیڑھ ماہ تک رکھا گیاْ۔ وہاں سے اسے دامون نامی حراستی مرکز میں ڈالا گیا جہاں آخری سات ماہ اس نے وہاں قید کاٹی۔
علاء نے کہا کہ گرفتاری کے پہلے ہی روز میں نے قرآن پاک حاصل کرلیا تھا۔ حراست اور تفتیش کے پورے عرصے میں قرآن پاک اس کا واحد رفیق اور ساتھی تھا۔
علاء مرشود کا کہنا ہے کہ حراست کے دوران اسے 12 بارعدالت میں پیش کیا گیا۔ اسے قیدیوں کے لیے مختص کی گئی بس کے ذریعے عدالت لے جایا جاتا۔
دامون جیل میں حراست کے دوران اس کی کوٹھڑی میںÂ 14 دیگر اسیرات بھی موجود تھیں حالانکہ ایک کمرے میں آٹھ سے زائد افراد کی گنجائش نہیں۔