غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) حال ہی میں اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ وہ موجودہ حالات میں خطے میںÂ مضبوط اتحاد کی تشکیل کے لیے سنجیدہ کوششیں کررہے ہیں۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسماعیل ھنیہ نے اس سیاسی اتحاد کے قیام کے وضاحت کرتے ہوئے حماس خطے کے ممالک کے ساتھ سیاسی بنیادوں پر نئے اتحاد کی تشکیل کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ہمارا مقصد پوری امہ کے اہم دھاروں کے درمیان رابطوں کا فروغ، اعتماد کی بحالی، اختلافات کا خاتمہ اور امریکی۔ صیہونی گٹھ جوڑ کے خلاف مسلم امہ کو ایک فورم پر متحد کرنا ہے۔فلسطینی تجزیہ نگاروں اور سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسماعیل ھنیہ کا خطے میں نئے سیاسی اتحاد کی تشکیل کا موقف اپنی نوعیت کا پہلا بیان نہیں۔ان سے قبل حماس کی قیادت اس طرح کے بیانات جاری کرتی رہی ہے۔ ان میں حماس کے سیاسی شعبے کے سابق سربراہ خالد مشعل نے اپنے سعودی عرب کے دورے کے دوران کہا تھا کہ حماس فلسطین کے لیے عرب اورمسلمان ممالک کے دروازے کھٹکٹھاتی رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ حماس کسی بھی مسلمان یا عرب ملک کی ضرورت سے بے نیاز نہیں ہوسکتی اور نہ ہی کسی کے اندرونی امور میں مداخلت کی روادار ہے۔
تعلقات عامہ مہ تشکیل نو
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیے جانے کے بعد کی پالیسی کی وضاحت کے حوالے سے بات کرتےہوئے اسماعیل ھنیہ نے کہا کہÂ امریکی اقدام کے بعد خطے میں نئےاتحاد کی تشکیل وقت کی ضرورت ہے۔ ہمیں امریکا کی طرف سے فلسطینیوں کی بندر بانٹ کے سازشی منصوبے’صدی کی ڈیل‘ کو ہرصورت میں روکنا ہوگا کیونکہ یہ ڈیل فلسطینیوں کو ان کے حقوق کے لیے نہیں بلکہ قضیہ فلسطین کے تصفیے کے لیے ہے۔
اسماعیل ھنیہ نے انکشاف کیا کہ خطے میں ان کی جماعت خطے میں نئی تزویراتی بنیادوں پر نئے اتحاد اور سیاسی تعلقات کی سنجیدگی سے تشکیل نو پرکام کررہی ہے۔ ہمارے کسی بھی علاقائی اتحاد کا محور فلسطینیوں کی مزاحمت کی حمایت کی بنیاد پر ہوگی۔
تجزیہ نگار ساری عرابی نے کہا کہ دنیا بھر میں جو کچھ ہو رہا ہے حماس کے اتحاد کا مفہوم اس کے برعکس ہے۔ حماس تنازعات میں الجھے بغیر تعلقات کو فلسطینی کے سیاسی اور انسانی حقوق کی حمایت کی بنیادوں پر استوار کرنا چاہتی ہے۔
تجزیہ نگار حسام الدجنی کا کہنا ہےکہ القدس کے حوالے سے خطے میں مسلمان ملکوں کے درمیان مذہبی ہم آہنگی پائی جاتی ہے اور حماس دینی اعتبار سے سیاسی اتحادوں کی تشکیل کے لیے کوششیں کرسکتی ہے۔ ایسے کسی بھی اتحاد کی تشکیل کامقصد القدس کی سیاسی بنیادوں پر حمایت میں اضافہ کرنا اور عالم اسلام اور ممالک کی قوت کو مجتمع کرنا ہے۔
تجزیہ نگار صلاح الدین العواودہ کا کہنا ہے کہ حماس کے لیے خطے کے مختلف دھاروں اور محاور میں نئے اتحاد کی تشکیل کے پہلی بار کوششیں نہیں کررہی ہے۔ یہ کوششیں ماضی میں بھی جاری رہی ہیں اور مستقبل میں بھی جاری رہیں گی۔ تاہم ماضی میں ایسی کوششوں کے بار آور ہونے کے امکانات مستقبل کی نسبت زیادہ تھے۔
دیرینہ اصول پہلی ترجیح
اسماعیل ھنیہ نے کہا کہ القدس، فلسطینی پناہ گزین اور غرب اردن کسی ایک کا نہیں بلکہ پوری مسلم امہ ک اجتماعی معاملہ ہے۔ حماس خطے میں نئے اتحاد کی تشکیل کے ذریعے خطے کے ملکوں کے مابین تعلقات کو استوار کرنا چاہتی ہے۔ القدس کے لیے حماس کسی بھی ملک کے پاس جا سکتی ہے۔
تینوں فلسطینی تجزیہ نگاروں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ حماس القدس اور دیگر دیرینہ اصولوں کی خاطر سب کے ساتھ بات چیت کرے گی مگر اس ضمن میں کسی قسم کی لچک نہیں دکھائے گی۔
العواودہ کا کہنا ہے کہ حماس تمام دستیاب مواقعوں کو فلسطینی قوم کے دیرینہ حقوق اور اصولوں کے لیے استعمال کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
خیال یہ کیا جا رہا ہے کہ حماس قومی، سرکاری، عرب اور اسلامی دنیا کی قوت کو مجتمع کرکے انہیں قضیہ فلسطین اور فلسطینی مزاحمت کے لیے استعمال میں لانا چاہتی ہے۔
طاقت مجتمع کرنے کی کوشش
حماس کو اس بات کا بہ خوبی ادراک ہے کہ مسلم امہ غیر مسبوق کشکمش اور خلفشار سے گذر رہی ہے۔ اگر مسلم امہ داخلی بحرانوں سے نکلنے میں کامیاب ہوتی ہے اور بالیقین ہوگی تو اسے ’فٹ نوٹ‘ کی حیثیت کے حامل مسائل کی پیچھے بھاگنے کے بجائے القدس کے حوالے سے جاری کشکمش کو ختم کرنے اور بیت المقدس کے دفاع کے لیے موثر حکمت عملی اپنانا ہوگی۔
تجزیہ نگار عرابی کا کہنا ہے کہ صیہونی ریاست مسلمانوں کو دست وگریباں رکھنے اور انہیں پارہ پارہ کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ بالخصوص عرب ممالک کو ایک دوسرے سے الجھائے رکھنا اسرائیل کا مفاد ہے مگر حماس پوری مسلم امہ کی قوت کو مجتمع کرنا چاہتی ہے۔ مسلم امہ کو قضیہ فلسطین کے گرد اکٹھا کیا جاسکتا سے کیونکہ یہ قضیہ صرف فلسطینیوں کا نہیں بلکہ عرب اور تمام مسلمان ممالک کا ہے۔
عرابی کا کہنا ہے کہ حماس نے مسلم امہ کو قضیہ فلسطین کے ساتھ جوڑںے کے لیے ہرممکن خدمات انجام دی ہیں۔ حماس مسلمانوں کی قوت کو مجتمع کرنا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے لیے علاقائی اتحاد قائم کرنا اہم ہے۔ پوری امت بھی جانتی ہے کہ فلسطین میں حماس کی عسکری پالیسی سے مسلمانوں کا فائدہ ہے۔
العوادہ کا کہنا ہے کہ حماس دوسرے ملکوں کے ساتھ تعلقات کی اہمیت سے آگاہ ہے۔ حماس اوّل سے آخر ایک مزاحمتی تحریک ہے۔ یہ کوئی آزاد ملک تو نہیں۔ اس لیے اسے پہلے ایک مزاحمتی تنظیم کے طورپر تسلیم کرنا ہوگا۔ حماس کسی عرب اور مسلمان ملک کے ساتھ رابطے منقطع نہیں کرنا چاہتی اور کوئی عرب یا مسلمان ملک حماس کو دور کرنا بھی نہیں چاہتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حماس گھیرے میں ہے اور اس کا دشمن بہت طاقت ور ہے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ حماس کو اس کے حق سے محروم کر دیا جائے گا۔