غزہ – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ اور اردن کے باہمی تعلقات میں تعطل تو نہیں البتہ اس میں سرد مہری کا عنصرضرور رہاÂ مگر حال ہی میں حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کی جانب سے اردنی فرمانروا شاہ عبداللہ دوم کے ساتھ ٹیلیفونک رابطے کے بعد دو طرفہ تعلقات میں پائے جانے والی سرد مہری ختم ہو رہی ہے۔
حماس اور اردن کے درمیان باہمی سیاسی،مواصلاتی اور سفارتی رابطوں کی غیر مسبوق مساعی اس بات کا ثبوت ہے کہ اردن کی جانب سے فلسطینی تحریک مزاحمت کی سیاسی اور آئینی حمایت کا بین ثبوت ہے۔فلسطینی تجزیہ نگار حسن عصفور کا کہنا ہے کہ حماس نے اپنے سیاسی پروگرام میں ’تبدیلی‘ کے بعد پڑوسی ملکوں، علاقائی قوتوں، عرب ممالک اور عالمی و فلسطینی برادری سے ڈائینامک رابطوں کی کامیاب پالیسی پرعمل پرعمل درآمد شروع کیا ہے۔ یوں حماس سیاسی مہارتوں کے ساتھ رابطوں کی مہارت کا بھی استعمال کامیابی کے ساتھ استعمال کرر رہی ہے۔
اپنے ایک مضمون میں فاضل کالم نگار کا کہنا ہے کہ حماس کے سیاسی شعبے کی قیادت ہاتھ میں لینے کے بعد اسماعیل ھنیہ نے عالمی برادری کے ساتھ رابطوں کا آغاز کیا ہے۔ بالخصوص یہ رابطے فلسطینی دھڑوں میں طے پانے والی مصالحت کے بعد شروع ہوئے ہیں۔
سیاسی رابطہ کاری
عالمی برادری بالخصوص عرب اور مسلمان ممالک کی قیادت کے ساتھ حماس کے رابطوں پر ابلاغی حلقوں میں مثبت رد عمل سامنے آیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ حماس نے عرب ممالک اور عالمی برادر کے ساتھ رابطہ کاری کی کامیاب حکمت عملی اپنائی ہے۔
عمان میں مڈل ایسٹ اسٹڈی سینٹر سے وابستہ ڈائریکٹر جواد الحمد کا کہنا ہے کہ اسماعیل ھنیہ کا اردنی فرمانروا شاہ عبداللہ دوم کے ساتھ ٹیلیفونک رابطہ باعث حیرت نہیںÂ بلکہ یہ ایک فطری امر ہے، کیونکہ حماس عالمی سفارتی میدان اور سیاسی رابطوں کی دنیا میں تغیر پذیر پالیسی پرعمل پیرا ہیں۔
تجزیہ نگار ابراہیم حبیب کا کہنا ہے کہ حماس کی قیادت کی جانب سے سفارتی اور سیاسی رابطہ کاری عالمی دنیا سے رابطوں کے خلاء کو پر کرنے کی کوشش ہے۔ حماس فتح کے ساتھ مصالحتی معاہدے کے ثمرات سمیٹنے کے لیے سفارتی محاذ پر کامیابی سے سرگرم ہے۔
مستقبل کے فوائد
مبصرین کا کہنا ہے کہ اسماعیل ھنیہ کا اردنی فرمانروا شاہ عبداللہ دوم کے ساتھ رابطہ ایک روایتی اورفطری رابطہ ہے۔ حماس اپنی روایتی سیاسی حریف فتح کے ساتھ مصالحتی معاہدے کے بعد فلسطین کی موجودہ صورت حال بالخصوص علاقائی اور عالمی برادری رابطے کرکے مصالحتی معاہدے کے ثمرات سمیٹ رہی ہے۔
ڈاکٹر الحمد کا کہنا ہے کہ حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کے عرب قیادت سے رابطے اس بات کا اشارہ ہیں کہ حماس موجودہ حالات کےتناظر میں علاقائی قوتوں کے ساتھ رابطوں کے لیے عملا تیار ہے۔ یہ رابطے محض اردن تک محدود نہیں بلکہ حماس رہ نماؤں نے دیگر عرب قیادت سے بھی رابطے شروع کیے ہیں۔
تجزیہ نگار حبیب کا کہنا ہے کہ حماس اردن کی شاہی قیادت کے ساتھ رابطوں کی اہمیت سے آگاہ ہے۔ اردن کی ایک اہمیت کا ایک پہلو فلسطین کے مقدس مقامات کی اردن کی نگرانی ہے۔ اس کے علاوہ اردن کی حکومت سنہ 2009ء کے بعد غزہ، غر ب اردن، بیت المقدس اور دیگر فلسطینی علاقوں میں متحرک رہی ہے۔
حماس کے اصول
تجزیہ نگار العصفور کا کہنا ہے کہ اسماعیل ھنیہ کا عرب قیادت سے رابطہ جماعت کے سیاسی اصولوں اور سیاسی پالیسی کی عکاسی کرتا ہے۔ اردنی فرمانروا کے ساتھ رابطہ حماس کی طرف سے یہ پیغام ہے کہ جماعت فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے ’متبادل ملک‘ کے کسی بھی فلسفے یا تجویز کو قبول نہیں کرے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ اردن کی فلسطینی مقدسات پر ‘متولیت‘ کو تسلیم کرتی ہے۔ مسجد اقصیٰ اور القدس کے معاملے حماس کی پالیسی اردن کی پالیسی سے ہم آہنگی رکھتی ہے۔
عصفور کا کہنا ہے کہ حماس کی سیاسی رابطہ کاری اردن کے ساتھ ساتھ دوسرے عرب ممالک کے ساتھ نئے افق تک پہنچنے کی کوشش ہے اور یہ سابقہ رابطوں میں ایک موثر قابل ذکر پیش رفت ہے۔
اردنی فرمانروا شاہ عبداللہ دوم نے حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ سےÂ بات چیت کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ اردن کی حکومت حماس اور اس کے فلسطینی اور علاقائی کردارکو تسلیم کرتی ہے۔