جنین – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطینی قوم کے خلاف اسرائیلی ریاستی دہشت گردی ہمہ جہت جاری ہے۔ آئے روز فلسطینیوں کے قتل عام کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کا معاشی قتل عام بھی جاری ہے۔ فلسطینی معیشت کے ستون کو صہیونی بھیڑیے دن رات نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں جس کے نتیجے میں فلسطینی قوم کوسنگین نوعیت کی مشکلات کا سامنا ہے۔
مقبوضہ فلسطین کے سنہ 1948ء کے علاقوں اور غرب اردن کے شمالی شہر جنین کے درمیان تجارتی آمد ورفت کو فلسطینی معیشت کی شہ رگ سمجھا جاتا ہے۔ جنین شہر اور شمال فلسطین کے علاقوں الجلیل، حیفا، الناصرہ اور المثلث جغرافیائی لحاظ سے جنین سے مربوط ہونے کےساتھ ساتھ معاشی طور پر ایک ہی زنجیرکی کڑیاں ہیں۔ جغرافیائی اعتبارسے جنین غرب ارد اور شمالی فلسطین کے کاروباری شہریوں کے لیے تجارتی مرکز ہے۔سنہ 1948ء کے علاقوں کے شہری 2016ء کے دوران جنین شہر میں ایک ارب 30 کروڑ شیکل کا کاروبار کیا۔ گذشتہ برس الجلمہ گذرگاہ سے 8 Â لاکھ 60 ہزار گاڑیاں جنین شہر میں داخل ہوئیں۔
جنین میں کاروباری نقل وحرکت Â کا انحصار سنہ 1948ء کے شہریوں کی آمد ورفت اور ان کی قوت خرید سے ہے۔ شمالی فلسطینی شہریوں کے مکینوں نے جنین کو ایک نئی تجارتی شکل دی ہے۔ مگر جنین اور شمالی فلسطین کے 1948ء کے دوران قبضے میں لیے گئے فلسطینی علاقوں کی تجارتی ترقی کا انحصار الجلمہ گذرگاہ کے کھلا رہنے پر ہے۔ مگر یہ یہ گذرگاہ چونکہ اسرائیلی فوج کے زیرنگرانی ہے۔ اس لیے وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اس گذرگاہ نے کھلا رکھنے کا دورانیہ کم سے کم کیا جا رہا ہے۔
حالیہ چند برسوں کے دوران جنین شہر میں تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں میں تیزی دیکھی گئی ہے۔ شہر سے باہر سے وہاں پر سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے اور لوگوں کی قوت خرید میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے مگر یہ سب کچھ اسرائیلی حکام کی مرہون منت ہے۔
معیشت کا انحصار گذرگاہ پر
جنین شہر کے چیمبر آف کامرس کےچیئرمین محمد کمیل نے کہا کہ اگر اسرائیلی فوج کی طرف سے شمالی فلسطینی علاقون اور جنین کے درمیان رابطے کے لیے استعمال ہونے والی ’الجملہ‘ گذرگاہ کے کھلا رہنے پر منحصر ہے۔ صہیونی ریاست ایک منظم پالیسی کے تحت شمالی فلسطینی شہروں کے فلسطینیوں کو جنین کی طرف میلان سے روکنے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے محمد کمیل کا کہنا تھا کہ اگر الجلمہ گذرگاہ کو چند گھنٹوں کے لیے بھی بند کیا جائے تواس کے جنین کی تجارتی سرگرمیوں پر منفی اثرات کئی روز بلکہ کئی ہفتوں تک محسوس کیے جاتے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا جنین کی تجارتی سرگرمیوں پر الجلمہ گذرگاہ کی بندش کے سوا اور بھی کوئی منفی پہلو اثر انداز ہوتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ جب الجلمہ گذرگاہ بند ہوتی ہے سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے تعلق رکھنے والے دوسرے شہروں کی راہ داریوں کی طرف سے سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ایک مقامی تاجر محمد ترکمان نے بتایا کہ جنین کا سرمایہ دار ہر وقت خوف کے عالم میں رہتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ شہر میں عدم استحکام، اسرائیلی حکومت کی جانب سے بلا جواز مداخلت اوراقتصادی سرگرمیوں میں رکاوٹیں پیدا کرنا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جنین میں موجودہ معاشی خوش حال عارضی ہے۔ صہیونی ریاست بار بار الجلمہ گذرگاہ کو بند کرکے جنین کی تجارتی اور کاروباری سرگرمیوں پر پابندیاں عاید کررہی ہے۔
ترکمان کا کہنا تھا کہ جنین شہر اور سنہ 1948ء کے علاقوں کے درمیان تجارتی روابط صدیوں پرانے ہیں۔ مقابلے میں قیمتوں میں استحکام اور توازن اور فلسطینیوں کے باہمی سماجی تعلقات بھی جنین کی معاشی ترقی کا ذریعہ ہیں۔
اقتصادی ترقی اور روزگار
جنین شہرکی قومی اکنامک کونسل کے ڈائریکٹر عماد ابو طبیخ نے بتایا کہ جنین میں جو تجارتی سرگرمیاں دیکھی جا رہی ہیں انہیں تجارتی ترقی کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ اگرچہ جنین میں معاشی نشو نما کے نتیجے میں بے روزگاری میں کمی بھی آئی ہے مگر یہ سب کچھ سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی شہروں سے تعلق رکھنے والے فلسطینیوں کی آمد ورفت سے ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے طبیخ نے کہا کہ جنین کی اقتصادی ترقی میں بہت حد تک کردار 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے تعلق رکھنے والے فلسطینیوں کا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر سیکڑوں گاڑیاں الجلمہ گذرگاہ عبور کرکےجنین شہر میں داخل ہوتے ہیں۔