سلفیت- (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین کی آزادی کے لیے غاصب دشمن کے خلاف جدو جہد کرتے ہوئے دشمن کی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے ہزاروں آہنی عزم فلسطینیوں کی اپنی اپنی داستان عزیمت ہے۔ تا ابد ظالم اور مظلوم کی کہی جانے والی ان حقیقی داستانوں میں تاریخ Â اسیر منصور موقدہ کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔
منصور موقدہ گذشتہ 15 سال سے صہیونی زندان میں پابند سلاسل ہیں۔ وہ مسلسل کئی سال سے وہیل چیئر پرہیں۔ گرفتاری، اذیتیں، صہیونی جیلروں کے ظلم وتعدی اور اپنے خاندان، بچوں اور ماں باپ سے دوری Â اور سب سے بڑھ کر اپنی جسمانی معذوری کے باوجود اس کے پایہ استقلال میں معمولی جنبش بھی نہیں آئی۔ وہ صہیونی زندان میں قید ہے مگرپورے قد کے ساتھ دشمن کے ساتھ سینہ تان کرکھڑا ہے۔فلسطین میں ’یو اسیران‘ کے موقع پر اسیر منصور موقدہ کے اہل خانہ سے ملاقات کرکے ان کے تاثرات معلوم کیے۔
خیال رہے کہ بھوک ہڑتال معذور فلسطینی منصور موقدہ کوصہیونی فوج نے تین جولائی 2002ء کو مقبوضہ مغربی کنارے کے سلفیت شہر سے حراست میں لیا تھا۔ گرفتاری کے وقت اسرائیلی فوجیوں نے اس پر گولیاں چلائی جس کے نتیجے میں تین گولیاں اس کی کمر میں پیوست ہوگئی تھیں۔ گولیاں لگنے سے اس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور اس کے جسم کا نچلا حصہ مفلوج ہوگیا تھا۔
اسیر منصور کے بھائی نمر موقدہ نے کہا کہ ہمیں اس بات تو فخر ہے کہ ہمارا بھائی وطن عزیز کی آزادی کی خاطر جسمانی طور پرمعذور ہوا ہے۔ مگ اسے دشمن کی جیل میں جس طرح کی نا انصافیوں کا سامنا ہے وہ افسوسناک ہیں۔ اگرچہ وہ دشمن کی جیل میں ہوتے ہوئے اور تمام تر آلام و مصائب جھیلنے کے باوجود اسے اسیران مسکراتا ہی دیکھیں گے۔
نمر نے کہا کہ یہ کہنا یا سننا تو ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنی مدد آپ کے تحت چل سکے اور نہ اپنا خیال رکھ سکے، اگر وہ دشمن کی قید میں چلا جائے تواس کا کیا حال ہوگا؟ اس لیے ہم اسیر منصور کی وئیل چیئر پر بیٹھے تصاویر تو دیکھ سکتے ہیں مگر ہم سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ کس کس طرح کی مشکلات کا شکار ہوگا۔
اسیر کے بھائی نے کہا کہ گرفتاری سے قبل منصورموقدہ جسمانی طور پرمکمل طور پرتندرست تھے۔ انہیں کسی قسم کی بیماری نہیں تھی۔ مگر صہیونی فوجی کئی سال تک ان کا تعاقب کرتے اور انہیں گرفتار کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ سنہ 2002ء میں صہوینی فوج نے تلاشی کی ایک کارروائی کے دوران منصور موقدہ پر اندھا دھند فائرنگ کی۔ جس کے نتیجے میں پانچ گولیاں اس کی کمر اور جسم کے نچلے حصے میں پیوست ہوگئیں۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور پیٹ پھٹ گیا جسکے نتیجے میں اس کا دھڑ مکمل طورپر مفلوج ہوگیا۔ اس وقت اس کا نصف معدہ پلاسٹک کا اور نصف انتڑیاں مصنوعی ہیں۔ اس کے پیٹ میں ایک لوتھڑا ابھر رہا ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ اندر کوئی گیند ہے جو جلد سے باہر نکل رہی ہے۔
نمر نے بتایا کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اہل خانہ مل کر موقدہ کی رہائی کے لیے مہمات چلاتے رہے ہیں مگر صہیونی دشمن نے 15 سال سے اسے مسلسل حراست میں رکھا ہوا ہے۔ موقدہ کی رہائی اور علاج کے لیے دی گئی ہردرخواست ٹھکرا دی جاتی ہے۔ اس کی رہائی تو درکنار صہیونی حکام نے اسے قید تنہائی میں ڈالے رکھا جہاں اس نے بہ طور احتجاج کئی ہفتے بھوک ہڑتال کی۔ بھوک ہڑتال کے دوران حالت بگڑنے پر اسے الرملہ اسپتال منتقل کیا گیا۔ یہ اسپتال فلسطینی قیدیوں کے لیے مختص ہے۔ اسپتال میں کچھ عرصہ نام نہاد علاج کے بہانے اسیر کو بستر سے باندھ کر رکھا گیا اور دوبارہ جیل میں ڈال دیا گیا۔
نمر نے کہا کہ اس کے بھائی کی روز مرہ کی بنیاد پر دیکھ بحال اور موثر علاج کی ضرورت ہے، جیل میں اسے نہ صرف علاج کی سہولت میسر نہیں بلکہ دیکھ بحال کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے۔
کٹھن مراحل
اسیر منصور موقدہ کے اہل خانہ نے بتایا کہ گذشتہ پندرہ سال سے اسرائیلی جیل میں قید ان کے عزیز نے کئی کٹھن مراحل طے کیے۔ اس کی گرفتاری کے دو سال بعد اس کے والد اللہ کو پیارے ہوگئے۔ والد کی موت اس لیے بھی المناک تھی کہ وہ ایک ٹریفک حادثے میں وفات پا گئے تھے۔ اس وقت صہیونی جیلروں کے ذریعے منصور سے رابطہ بہت مشکل تھا۔ اہل خانہ نے منصور سے والد کی وفات کی خبر کئی ماہ تک چھپائے رکھی۔ کئی ماہ بعد جب انہیں والد کی وفات کی خبر دی گئی تو وہ اس قدر دل گرفتہ ہوئے کہ 22 دن تک انہیں اسپتال میں آئی سی یو میں رکھنا پڑا تھا۔
منصور کی والدہ یکے بعد دیگرے مصائب وآلام جھیلتے جھیلتے اب یاداشت بھی کھو چکی ہیں۔ شوہر کی المناک ٹریفک حادثے میں وفات اور جواں سال بیٹے کی جسمانی معذور اور دشمن کی جیل میں قید نے والدہ کو اس مقام تک پہنچا دیا کہ وہ Â یاداشت ہی سے محروم ہوچکی ہیں۔ دو سال سے زاید عرصہ گذر چکا ہے کہ منصور کو اس کی والدہ سے نہیں ملایا گیا۔ والدہ کی یہ حالت منصور کے علم میں ہے اور وہ بھی جیل میں اپنی ماں کے بارے میں بہت فکر مند رہتا ہے۔
بیٹوں کے ملنے پر پابندی
اسیر منصور موقدہ اور ان کے بچوں کی ایک بڑی پریشانی والد کی بچوں سے ملاقات نہ ہونا ہے۔ اسیر منصور موقدہ کا بڑا بیٹا اس وقت 21 سال کا ہوچکا ہے۔ جب منصور موقدہ کو زخمی حالت میں گرفتار کیا گیا تو بڑا بیٹا رعد چھ سال کا تھا۔ پچھلے تین سال سے اسیر اور اس کے بیٹوں کے درمیان ملاقات نہیں ہوسکی۔
اسیر کی اہلیہ کا کہنا ہے کہ وہ کئی بار جیل میں منصور سے ملنے گئے مگرانہیں ہربار نہایت توہین آمیز انداز میں دھتکار دیا جاتا ہے۔ والد سے ملاقات کی بار بار کوشش کے باوجود ناکامی نے ان کے بیٹوں کے نفسیات پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔
البتہ اسیر کے بھائی نمر کو سال میں ایک بار چند منٹ کے لیے موقدہ سے ملنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ نمر کا کہنا ہے کہ وہ جب بھی جیل میں اپنے بھائی سے ملنے جاتا ہے تو جیل کے باہر سے لے کر بھائی کے کمرے تک اس کی اس توہین آمیز طریقے سے تلاشی لی جاتی ہے جس پر گمان گذرتا ہے کہ میں خود ایک سنگین نوعیت کا مجرم ہوں۔ یہ تماشا بار بار دیکھنا پڑتا ہے۔