مقبوضہ بیت المقدس (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین کے دریائے اردن کے مغربی کنارے کے جنوبی شہر بیت لحم کے شمال اور بیت المقدس کے جنوب سے متصل ایک قصبہ’بیت صفافا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ نام ’صفیفا‘ کے پرانے نام کی ایک نئی شکل ہے جب کی سریانی زبان میں اسے ’بیت العطشان‘ بھی کہا جاتا ہے۔
سنہ 1948ء کی جنگ میں فلسطین میں صیہونی ریاست کے ناسور کے قیام کے وقت اردن اور اسرائیل کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جسے ’روڈس سمجھوتے‘ کا نام دیا گیا۔ چونکہ بیت المقدس سے حیفا تک ریلوے لائن اسی گاؤں سے ہو کر گذرتی تھی، یہی وجہ ہے کہ قصبے کا دو تہائی حصہ اسرائیل کو اور بقیہ علاقہ اردن ک دے دیا گیا۔فلسطنی تجزیہ نگار انجینیر عبدالکریم لافی نے کہا کہ ’بیت صفافا‘ اپنی خوبصورتی کی وجہ سے فلسطین میں ابدی شہرت رکھتا ہے مگر یہ قصبہ اس وقت چاروں اطراف سے صیہونی کالونیوں میں گھر چکا ہے۔ اس کا 20 فی صد علاقہ صیہونی کالونیوں کے لیے استعمال کیا جا چکا ہے۔ سنہ 1967ء کی جنگ کے بعد ’بیت صفافا‘ کے مکینون کی مشکلات میں کئی گنا اضافہ ہوگیا کیونکہ اس جنگ میں یہ علاقہ صیہونی ریاست کے براہ راست تسلط مین آگیا۔ یہاں سے نقل مکانی کرنے والے فلسطینیوں کو ان کے حقوق سے محروم کردیا گیا اورقصبے کی تمام اراضی املاک متروکہ میں شامل کردی گئی۔
انہوں نے بتایا کہ صیہونی فوج نے متروکہ املاک قرار دے کر فلسطینیوں کے 13 گھروں پر قبضہ کرلیا۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا تھا کہ ’بیت صفافا‘ کی نصف آبادی کے پاس اسرائیل اور باقی آدھی کے پاس اردن کی شہریت ہے۔
اس اعتبار سے یہاں پر دو طرح کے نصاب تعلیم رائے ہیں۔ ایک فلسطینی اور دوسرا اردنی نصاب تعلیم ہے۔ صیہونی ریاست کی طرف سے فلسطینی نصاب اور نظام تعلیم کو ختم کرانے کے لیے شر انگیز مہم بھی جاری ہے۔
یہاں کے مقامی باشندوں کا ایک سماجی اور خانگی مسئلہ بھی ہے۔ سنہ 1967ء کی جنگ کے مقبوضہ علاقوں اور سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں کے رہنے والوں کے درمیان رشتہ داریاں قائم ہیں۔ سنہ 1967ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے علاقوں کے فلسطینی جن کی شادیاں سنہ 1948ء کے مقبوضہ شہروں میں ہوئی ہیں، ان کے پاس اسرائیل کی شہریت ہے۔ شوہر جوالنبی پل اور ان کے بچوں کو الشیخ حسین پل سے گذرنا پڑتا ہے۔
’بیت صفافا‘ کے درمیان سے پانچ شاہرائیں گذرتی ہیں جنہوں نے قصبے کو ٹکڑوں میں تقسیم کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ سنہ 1973ء کے بعد اس میں نئی صیہونی کالونیاں تعمیر ہونا شروع ہوئیں اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔
شاہراہ ’داف یوسف‘ شہر کے وسط، مغرب اور مشرق سے گذر کر ’گیلو‘ صیہونی کالونی سے ملتی ہے۔
سنہ 1980ء کے وسط میں صیہونی ریاست نے یہاں پر ’تلبیوت‘ نامی ایک صنعتی کالونی قائم کی۔ اس کے بعد یہاں پر ’موشے برعام‘ سڑک تعمیر کی گئی۔ یہ سڑک الخلیل کی دیگر صنعتی کالونیوں کو باہم ملانے کے ساتھ شمال میں یعقوب بات سڑک سے بھی ملتی ہے۔
سنہ 1991ء میں ’بیت صفافا‘ کا نقشہ مزید تبدیل کرنے کے لیے شاہراہ 4 کے لیے کھدائیوں کا سلسلہ شروع ہوا اور بالآخر 300 دونم کی قیمتی اور خوبصورت زمین سڑک کی نذر کردی گئی۔ اس کے بعد الگے مرحلے پر ’بیت صفافا‘ میں ’دو یوسف‘ روڈ کی تعمیر کے لیے 200 دونم غصب کیے گئے۔
’بیت صفافا‘ میں تاریخی مقامات کی بھی کمی نہیں۔ یہاں پر بازنطینی دور کا ٹاور علاقے کا لینڈ مارک ہے۔ اس کے علاوہ کئی اور مقامات بھی اپنی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں جن کی بدولت ’بیت صفافا‘ تاریخی مقامات کا بھی مرکز بتایا جاتا ہے۔
فلسطین کا یہ تاریخی اور قدرتی حسن کا شاہکار قصبہ اس وقت صیہونی ریاست کی صیہونی سازشوں کی زد میں ہے اور اسے ہر طرف سے صیہونی کالونیوں، شاہراؤں اور دیگر بنیادی ڈھانچے کی آڑ میںÂ کی قیمتی اراضی غصب کی جا رہی ہے۔