مقبوضہ بیت المقدس (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) مقبوضہ بیت المقدس شہر میں خلافت عثمانیہ کے دور کی بے شمار تاریخی یاد گاروں میں سے ایک عثمانی عجائب گھر بھی ہے جو برسوں سے صیہونیت کی زد میں ہے۔
رپورٹ میں ’عثمانی عجائب گھر‘ پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ہے کہ جتنا یہ میوزیم اہم ہے اتنا ہی اس کی بقاء کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔
بیت المقدس میں شاہرہ سلیمان القانونی نمبر 27 کے ایک کونے پر مشرق کی سمت میں الرشیدیہ اسکول کی عمارت سے متصل ایک بلڈنگÂ واقع ہے۔ اس عمارت کو ’روکفلر‘ بلڈنگ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا افتتاح سنہ 1938ء میں ہوا۔ بیت المقدس کے شمال مشرق میں دیوار القدس جہاں القلق ٹاور بھی ہے یہ یادگار واقع ہے۔بیت المقدس کے تاریخیÂ لینڈ مارکس میں سے ایک یہ میوزیم بھی ہے۔ یہ عمارت ایک ٹیلے پر تعمیر کی گئی اور یہ ٹیلہ آج تک بکرم الشیخ محمد الخلیلی کے نام سے مشہور ہے۔
بنیاد اور اھداف
اسلامی اوقاف اور فلسطینی آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر یوسف النتشہ نے کہا کہ عثمانی میوزم کی عمارتÂ القدس میں روایتی دور کی ان عمارتوں کی طرز پر تعمیر کی گئی جو اس سے قبل سترھویں صدی عیسوی میں مروج تھی۔
عمارت کی تعمیر کے بعد اسے ایک میوزیم میں تبدیل کردیا گیا اور اسے فلسطین میوزیم کا نام رکھا۔ مغربی لٹریچر میں اسے ’روکفلر‘ میوزیم بھی کہا جاتا ہے۔ مشہور ہے کہ یہ میوزیم امریکی دولت مند جون روکلفر کی طرف سے دی گئی 20 لاکھ ڈالر کی امدادی رقم سے تعمیر کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس میوزیم کو روک فلر میوزیم بھی کہا جاتا ہے۔
عجائب گھروں کا مجموعہ
یوسف النتشہ کا کہنا ہے کہ عجائب گھروں کی سیر بہت سے معلومات کے حصول کا ذریعہ ہوتی ہے۔ اس لیے فلسطین آنے والوں کو اس عجائب گھر کی بھی سیر کرنی چاہیے۔ نہ صرف عجائب گھر میں رکھی گئی نوادرات قابل دیدل ہیں بلکہ عمارت کا اندرونی اور بیرونی منظر بھی کم دلکش نہیں۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین میں کئی اور عجائب گھر موجود ہیں۔بہت سے عجائب گھروں پر اسرائیل نے سنہ 1967ء کی جنگ میں قبضہ کیا اور اس کے بعد ان کی نوادارات اسرائیل منتقل کردی گئیں۔
باقی بچ جانے والے معدود چند عجائب گھروں میں فلسطین عجائب گھر اور مسجد اقصیٰ کے اندر موجود عجائب گھر ہیں۔ باقی بہت سے عجائب گھر صیہونی ریاست کی فلسطین دشمنی کی بھینٹ چڑھ گئے۔
برطانوی ڈیزائن
یوسف النتشہ کا کہنا ہے کہ فلسطین عجائب گھر کا ڈیزاین برطانوی معمار اوٹین سانٹ پارپ ھاریسن نے تیار کیا۔ ھاریسن 1891ء میں پیدا ہوئے اور 1976ء میں وفات پائی۔ انہوں نے بازنطینی فن تعمیر کے بارے میں باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور فلسطین سمیت دنیا کے دوسرے ملکوں میں اسلامی تاریخی فن تعمیرسے بہت حد تک متاثر ہوا۔
فلسطین میں ھاریسن کا قیام بیت المقدس کی الثوری کالونی میں تھا۔ وہ فلسطین کی کئی دوسری عمارتوں کا بھی معمار اور ڈیزائنر ہے۔ اس نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی عمارت بھی ڈیزائن کی۔ آج یہ عمارت اقوام متحدہ کے علاقائی دفتر کے طور پر استعمال ہورہی ہے۔
ھاریسن نے اپنے فن تعمیر میں جہاں مشرقی فن تعمیر کو اہمیت دی وہیں کئی مواقع پر مشرقی اور مغربی فن تعمیر کو یکجا کرکے اپنی کمال مہارت اور دست ہنر کا ثبوت پیش کیا۔