مقبوضہ بیت المقدس (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) مقبوضہ بیت المقدس کے تمام تاریخی مقامات صیہونی ریاست کی ’تہویدی‘ یلغار کی زد میں ہیں۔ آئے روز کسی مسجد، تاریخی عمارت، عبادت گاہ یا قبرستان کی بے حرمتی اور اسے یہودیانے کی خبریں سامنے آ رہی ہیں۔
دیگر صیہونی ریشہ دوانیوں میں مسجد اقصیٰ سے متصل القدس کے مشرق میں قائم تاریخی قبرستان’الرحمۃ‘ کی تقسیم کی سازش بھی زوروں پر ہے۔ قابض صیہونی ریاست باب الرحمۃ قبرستان میں نام نہاد توراتی منصوبوں پرعمل پیرا ہے۔ اس حوالے سے القدس انٹرنیشنل فاؤنڈیشن نے ایک تفصیلی اور با تصویر رپورٹ مرتب کی ہے جس میں باب الرحمۃ کی تاریخی، دینی اور سماجی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ قبرستان کو لاحق خطرات پر ایک تفصیلی ’ورک شیٹ‘ مرتب کی گئی ہے۔تاریخی قبرستان’باب الرحمۃ‘ مسجد اقصیٰ کے قریب واقع قبرستانوں میں سے ایک ہے۔ فلسطین کے کئی دیگر قبرستانوں میں اس قبرستان میں بھی کئی جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی آخری آرام گاہیں موجود ہیں۔ جن میں خاص طورپر حضرت عبادہ بن الصامت، شداد بن اوس کی قبریں آج بھی نمایاں اور واضح ہیں جو قبرستان کی1400 سالہ اسلامی تاریخ کی گواہ ہیں۔
قبرستان کی مشرقی دیوار ’باب المغاربہ‘(مشرقی دروازے) سے متصل ہے۔ مغرب میں القدس کی مشرقی دیوار جسے دیوار مسجد اقصیٰ بھی کہا جاتا ہے۔ جنوب میں سلوان اور اموی محلات اور شمال میں تلہ الکبیرہ جسے آل الحسینی کی جانب سے قبرستان کے لیے وقف کیا تھا واقع ہے۔
بیت المقدس میں اسلامی قبرستانوں کی نگہداشت کی ذمہ دار کمیٹی کے چیئرمین مصطفیٰ اب زھرۃ کا کہنا ہے کہ صیہونی حکام قبرستان کے مشرقی حصے کو سلب کرنا چاہتے ہیں اور اس مذموم مقصد کے لیے قبرستان کی جنوبی سمت میں آہنی اور فولادی دیوار کھڑی کی جا رہی ہے۔ یہ دیوار قبرستان میں شمالا جنوبا تلہ الحسینی تک تعمیر کی جارہی ہے تاکہ قبرستان کے ایک اہم حصے کو صیہونی آباد کاری کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکے۔
قبرستان کا یہ حصہ جسے اسرائیلی حکام قبرستان سے الگ کرنا چاہتے ہیں پانچ دونم پر پھیلا ہوا ہے تاہم اس میں اب ایک دونم اضافی جگہ بھی شامل کی گئی ہے۔
ابو زھرہ نے کہا کہ الرحمۃ قبرستان کی ساری اراضی اسلامی اوقاف کی وقف املاک کا حصہ ہے اور اس کا ثبوت سرکاری لینڈ ریکارڈ میں موجود ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ صیہونی حکومت قبرستان کی اراضی پر ملکیت کا دعویٰ کرتی ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ صیہونی حکومت کی جانب سے قبرستان کے کسی حصے پر دیوار کی تعمیر کرنا چاہتی ہے تو اس کے خطرناک نتائج سامنےÂ آسکتے ہیں۔ اس قبرستان کا ایک حصہ مصری شہداء پر مشتمل ہے جنہوں نے سنہ 1948ء کی جنگ میں اسرائیلی فوج کے خلاف لڑتے ہوئے اپنی جانوں کی قربانی دی تھی۔ ان شہداء کی تعداد 123 بتائی جاتی ہے جو الرحمۃ قبرستان میں سپرد خاک ہیں۔
فلسطینی محکمہ اوقاف کے عہدیدار نے کہا کہ قبرستان پر دیوار کی تعمیر اسے تقسیم کرکے وہاں پر تعمیرات کی راہ ہموار کرنا ہے۔ گذشتہ جمعرات کو اس دیوار کی تعمیر مکمل کی گئی ہے جسکے بعد وہاں پر سیاحتی مقاصد کے لیے عمارتوں کی تعمیر اور تلمودی پارک تعمیر کیا جا رہا ہے۔
ابو زھرہ نے کہا کہ انہوں نے قبرستان کی اراضی ہتھیانے کے معاملے کو الحسینی اور الانصار اوقاف کے متولیان کے سامنے بھی پیش کیا ہے اور یہ معاملہ اسرائیل کی مرکزی عدالت میں بھی اٹھایا گیا ہے۔
انہوں نے الرحمۃ قبرستان کو یہودیانے سے بچانے کے لیے مصر، ترکی اور اسلامی تعاون تنظیم سمیت دیگرممالک سے اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کی اور زور دیا کہ وہ الرحمۃ قبرستان میں صحابہ کرام، تابعین اور شہداء کی آخری آرام گاہوں کو صیہونیت کی یلغار سے بچائیں۔
خیال رہے کہ الرحمۃ قبرستان مسجد اقصیٰ کے باب الاسباط سے مسجد کی دیواروں کے ساتھ ساتھ 23 دونم پر پھیلا ہوا ہے۔ اس قبرستان میں بیت المقدس کی فتح میں شامل صحابہ کرام کی قبور کے ساتھ صلاح الدین ایوبی کی فوج کے سپاہیوں کی بھی قبریں موجود ہیں۔