گریٹا برلن کا کہنا تھا “افق نو کانفرنس” (نیا افق) بین الاقوامی شخصیات کے تجربات کے تبادلے کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ ایران کے نیٹ ورکس اور مواصلات بے انتہا قابل قدر ہیں، اس کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے بھی اور ایران کے رویے اور نقطہ نظر کے لحاظ سے بھی، اس ملک کو مبارک کہنا چاہئے۔
جاثیہ تجزیاتی ویب سائٹ کے مطابق، گریٹا برلن (Greta K. Berlin) فلسطین کی حامی امریکی کارکن جو سنہ 1960 کے عشرے سے یہودی ریاست سے فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم ہیں اور غزہ کی تحریک آزادی (Free Gaza Movement) کے بانیوں میں سے ہیں اپنی ایک تحریر میں قدس کی اہمیت کے موضوع پر رقمطراز ہیں:“مجھے اس سال افق نو کانفرنس میں شرکت اور تقریر کرنے کی دعوت دی گئی، تو واقعی بہت خوش ہوئی۔ جی ہاں میں بھی، ان افراد میں سے ایک ہوں کہ جو بین الاقوامی سطح پر تشدد کے خلاف اور فلسطینیوں کے لئے عدل و انصاف کی ضرورت پر بات کرتے ہیں۔ مجھے دکھ ہؤا کہ یہ کانفرنس چند مہینوں تک مؤخر ہوئی، تاکہ اس میں کچھ تبدیلی لائی جائے۔ کیونکہ ضروری ہے کہ ہماری آواز سنی جائے۔ افق نو کانفرنس کو تمام مذاہب، پوری سول سوسائٹی اور قدس کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں ایک نہایت اچھا موقع گرداننا چاہئے۔
میں یہ باتیں علاقے کی تاریخ کی ایک ماہر، ایک مذہبی فرد اور مادری وطن میں واپس جا کر آزادانہ زندگی بسر کرنے سے عاجز دو فلسطینی بچوں کی ماں کی حیثیت سے نہیں کر رہی ہوں بلکہ ایک سیاسی سرگرم کارکن کی حیثیت سے بات کر رہی ہوں، ایک ایسے انسان کی حیثیت سے جو گذشتہ پچاس برسوں سے فلسطینیوں کی اپنے وطن واپسی کے حق کی حمایت کرتا رہا ہے۔
میں بین الاقوامی اداروں کی نمائندہ کی حیثیت سے بات کررہی ہوں جو فلسطینیوں کی اپنے وطن واپسی کے حق کے تسلیم کئے جانے پر اصرار کرتے ہیں۔ میں تحریک آزادی غزہ کی ایک بانی کی حیثیت سے بات کررہی ہوں، میں آج تک پانچ بحری جہاز غزہ بھجوانے میں کامیاب ہوچکی ہوں، تا کہ اس چھوٹی سے پٹی کا غیر قانونی محاصرہ ختم ہوجائے۔
ميں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ غیر قانونی قابضین یعنی اسرائیلیوں نے اس چھوٹی سی عام شہری آبادی کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا ہے، اور میں نے دیکھ لیا ہے کہ انھوں نے کس طرح 20 لاکھ فلسطینیوں کی نسل کشی کا آغاز کیا ہے، جن میں سے آدھی آبادی کی عمریں 18 سال سے کم ہیں۔ میں، جو ایک عشرے تک دریائے اردن کے مغربی کنارے میں رہائش پذیر تھی اور کام کررہی تھی، مزید فلسطین میں داخل نہیں ہوسکتی۔ میں نے اپنی آنکھوں سے فلسطین کے حقیقی وارثوں پر لوہے میں ڈوبی ہوئی اسرائیلی فوج کے ظلم و ستم کو قریب سے دیکھا ہے اور محسوس کیا ہے۔
سنہ 2003 سے 2005 تک ـ جب میں شہر جنین میں رہتی تھی ـ کئی بار قدس کے سفر پر گئی، میں اس تاریخی شہر کی شان و شوکت دیکھ کر حیرت زدہ ہوئی جو کسی زمانے میں تین الہی ادیان کے پیروکاروں کا مسکن تھا۔ یہ شہر [قدس] فلسطینیوں کا ہے اور دنیا بھر کے انسانوں کا ہے، یہ ایک قابضانہ سوچ کی ملکیت نہیں ہے۔ قبۃ الصخرہ، مسجد “الاقصی”، کلیسا “المہد”، کلیسا مقبرہ مقدسہ (Church of the Holy Sepulchre) اور دیوار ندبہ (Western Wall) کو تمام انسانوں کے لئے ابد تک محفوظ رہنا چاہئے۔
جو بات افق نو کانفرنس کو قابل قدر بناتی ہے وہ یہ ہے کہ اس میں بہت سی ابلاغیاتی، سیاسی اور عسکری شخصیات اور علمی و سائنسی حلقوں کے مفکرین، سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں، فنکاروں اور مؤلفین و مصنفین کو دعوت دی گئی ہے تا کہ وہ اس نشست میں شرکت کریں اور اپنے تجربات دوسروں کو منتقل کریں۔ صرف تجربات کی منتقلی ہی قابل قدر نہیں ہے بلکہ جو قابل قدر ہے بلکہ ایران کے نیٹ ورکس اور مواصلاتی مواقع بھی بہت قابل قدر ہیں۔ ہم میں سے بہت سے افراد نے ـ جو فلسطینیوں کی آزادی کے لئے سرگرم عمل ہیں ـ صرف سوشل میڈیا میں یا دنیا بھر میں حادثاتی مظاہروں کے دوران جن میں ہم ضرور شرکت کرتے ہیں ـ ایک دوسرے کو پہچان لیا ہے۔
یہ کانفرنس ہمارے لئے ایک خاص موقع ہے اور ہمیں افق نو کانفرنس میں ایران کے طرز فکر اور نقطہ نظر کے حوالے سے مبارکباد کہنا چاہئے، کیونکہ اس کانفرنس میں ہم فکر اور ہم عقیدہ افراد کے ساتھ ساتھ ایسے افراد بھی شرکت کرتے ہیں جو دنیا کو تبدیلیوں سے دوچار کرنے کی استعداد رکھتے ہیں۔ اگر فلسطین میں امن و امان نہ ہو تو ہمارے پاس عالمی سلامتی کے قیام کا موقع بھی نہیں ہوگا۔ اگر قدس تمام انسانوں کا شہر نہ رہ سکے تو اس کو مزید امن و سلامتی کا شہر نہیں کہا جاسکے گا۔
امسال (2018 کو) تہران میں منعقدہ کانفرنس قدس کی ابدی روشنی کی یاد میں منعقد ہورہی ہے۔
کون ہے جو کہہ سکے کہ ہم جو اس سال اس کانفرنس میں شرکت کررہے ہیں اگلے سال کو قدس کی آزادی کے سال میں تبدیل نہیں کرسکتے؟
اگلا سال قدس کا موضوع ایک نعرے سے بہت آگے ہے، یہ ایک ابدی وعدہ ہے فلسطینی عوام اور پوری دنیا کے عوام کے لئے، اور ایران قدس کی آزادی کے حوالے سے ان ممالک سے ایک قدم آگے ہے جو اس نقطہ نظر اور اس دور اندیشی سے محروم ہیں”۔
گریٹا برلن کا مختصر تعارف (شناختی نشان: فلسطین) :
گریٹا برلن (Greta K. Berlin) فلسطین کی حامی امریکی کارکن ہیں، سنہ 1960 کے عشرے یہودی ریاست سے فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم رہی ہیں، غزہ کی تحریک آزادی غزہ (Free Gaza Movement) کے بانیوں میں سے ہیں۔ برلن کا پہلا سفر “غزہ کی آزادی” کے عنوان سے غزہ جانے والے قافلوں کے ہمراہ انجام پایا؛ وہ ہر سال مختلف گروپوں کو غزہ کے لئے اشیاء خورد و نوش اور ادویات بھجوانے کی ترغیب دلاتی ہیں؛ انھوں نے 2008 میں انسانی حقوق کے پچاس کارکنوں کو غزہ بھجوایا تھا۔ ان کے پہلے شوہر “ربحی” 1948 میں فلسطینی شہر “صفد” میں پیدا ہوئے تھے اور ان کی پیدائش کے کچھ ہی عرصہ بعد ان کے خاندان کو یورپیوں کے ہاتھوں مجبور ہوکر فلسطین چھوڑنا پڑا تھا۔ ربحی بھی فلسطین کی آزادی کے لئے سرگرم تھے اور اسی سلسلے میں باہمی ملاقاتوں کے بعد ان کی شادی ہوئی تھی۔ ان دو کی شادی کا ثمرہ ان کے دو فرزند ہیں جن کی شہریت فلسطینی ہے جبکہ دونوں امریکہ میں مقیم ہیں۔
گریٹا برلین پچاس برس سے زائد عرصے سے فلسطین کاز کے لئے جدوجہد کررہی ہیں۔ انہیں مغرب میں متعدد بار لعنت ملامت کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے؛ اس کے باوجود گریٹا اور ان کے دو رفقائے کار ایرانی نژاد (عیسائی) امریکی شہری پال لارودی (Paul Larudee) اور میری ہوگس تامپسن (Mary Hughes Thompson) نے ایسے دور میں فلسطین کی آزادی کے لئے بڑے اقدامات کئے، جب مغرب میں فلسطینی حقائق بیان کرنا ایک سپنا سمجھا جاتا تھا۔ گریٹا نے ملامتوں کے جواب میں طویل تقاریر کا اہتمام کیا ہے اور بہت سارے مضامین اور کالم لکھے ہیں گوکہ انہیں مغرب میں مسلسل ابلاغیاتی مقاطعے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔