فلسطینی اتھارٹی کےسربراہ محمود عباس نے کئی ماہ پہلے غزہ کی پٹی کے مریضوں پر ایک نیا انتقامی بم گرایا اور انہیں فلسطین کے دوسرے علاقوں میں علاج کی اجازت دینے پر پابندی عائد کردی۔ اس پابندی کے نیتجے میں کئی فلسطینی مریضوں جن میں شیر خوار بچے اور عم رسیدہ فلسطینی بھی شامل تھے علاج کے لیے سفر کی اجازت نہ ملنے سے جان کی بازی ہارگئے۔ اسی ڈگر پر چلتے ہوئے انتقامی کارروائی کے طور پر فلسطینی پناہ گزینوں کی بہبود کے لیے قائم کردہ ’ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی‘ (اونروا) نے قلقیلیہ میں خواتین، بچوں اور سرجری کے وارڈز بند کردیے۔
اس بندش کے خلاف فلسطینی شہریوں کی طرف سے شدید احتجاج جاری ہے۔ احتجاج میں ایک عمر رسیدہ فلسطینی یونس مسلم قرعان بھی شامل ہوگئے ہیں۔ انہوں نے اپنا بستر اسپتال سے اٹھوا کر اس کے باہر لگے احتجاجی دھرنے میں رکھ دیا۔
اسپتال کے کئی سیکشن کو بند کیے جانے کی مذمت کرتے ہوئے الحاج قرعان نے کہا کہ یہ اسپتال پناہ گزینوں کی علاج کی سہولت فراہم کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔
اگر یہ بھی بند کردیا گیا تو پھر ہم کہاں جائیں گے۔ ہم علاج کے لیے اتنے پیسے کہاں سے لائیں گے کہ مہنگے اسپتالوں میں داخل ہوسکیں۔ کیا Â اسپتال میں سہولیات بند کرکے ہمیں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا؟۔
اسپتال بندش
ساٹھ سالہ الحاج یونس قرعان نے کہا کہ ’ میں اس اسپتال میں کئی بار آیا اور ڈاکٹروں نے میری بڑی آنت کا آپریشن کیا۔ ب یہ کہا جا رہا ہے کہ یہاں پر تمہارا علاج نہیں ہوسکتا یہاں سے جاؤ کسی اور اسپتال کا درواہ کھٹکھٹاؤ‘ تکلیف کے ساتھ یونس قرعان نے کہا کہ یہ اسپتال پناہ گزینوں کے علاج کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ میں اب کہاں جا سکتا ہوں۔ میں اتنے وسائل کہاں سے لائوں کہ کسی دوسرے اسپتال میں علاج کے لیے جاؤں۔
حاملہ فلسطینی Â خاتون خلود الشنطی نے کہا کہ اسپتال میں زچہ بچہ وارڈ بند کرنا مقامی فلسطینی آبادی کے لیے بہت بڑا مسئلہ پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ اس نے کہا کہ میں آٹھ ماہ سے امید سے ہوں اور اب بچہ پیدا ہونے کا وقت قریب آگیا ہے۔ کیا مجھے کسی اور اسپتال کو تلاش کرنا پڑے گا جہاں کم سے کم ایک ہزار شیکل کی رقم خرچ کرنا ہوگی۔ میں پناہ گزین ہوں اور میرے علاج کی ذمہ داری اونروا پرعائد ہوتی ہے۔
قلقیلیہ میں پناہ گزینوں کے حقوق کی حمایت کے لیے قائم کردہ عوامی کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر صبری الولویل نے کہا کہ قلقیلیہ کا یہ اسپتال نہ صرف اس شہر بلکہ نابلس اور طولکرم کے مریضوں کے لیے بھی امیدوں کا مرکز رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسپتال کے انتہائی اہمیت کے حامل وارڈ بند کرنے کے سنگین نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ قلقیلیہ کے اسپتال کی بندش کے بعد قریب ترین اسپتال 40 منٹ کی مسافت پر ہیں۔ انتہائی نگہداشت کے مریضوں کے لیے یہ خطرناک صورت حال اور مریضوں کی زندگی خطرے میں ڈالنے کی کوشش ہے۔
بندش کے من گھڑت حیلے
حال ہی میں اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی ’اونروا‘ نے قلقیلیہ کا جنرل اسپتال بند کرنے کا اعلان کیا تو اس کی بندش کے نام نہاد دعوے اور بہانے تراشے گئے۔
یہ اسپتال نہ صرف مقامی مریضوں کے لیے علاج کا مرکز ہے۔ اس کی بندش سے مریضوں کے ساتھ ساتھ 120 ملازمین کے ذریعہ معاش پر بھی حملہ ہے۔
ایک مقامی شہری اور بہبود آبادی کمیٹی کے سربراہ حسنی عودہ نے کہا کہ ’انروا‘ کی جانب سے اسپتال کی بندش کے لیے جو بہانے تراشے گئے ہیں ان کا کوئی جواز نہیں۔ انہوں نے بتایا یہ اسپتال اقوام متحدہ کی قراردادوں 194 اور 302 کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے اعلان کے مطابق اس اسپتال کو اونروا کے تمام دیگر اسپتالوں کی طرح اس وقت تک کام کرنا ہے جب تک فلسطینی پناہ گزین اپنے علاقوں میں آباد نہیں کیے جاتے ہیں۔
حسنی عودہ نے کہا کہ اسپتال بند کرکے پناہ گزینوں سے ان کے حقوق سلب کرنے کی مذموم کوشش کی گئی ہے۔ ہمیں ہمارے آبائی شہروں سے بے دخل کیا گیا۔ اس وقت فلسطینی پناہ گزین دگر گوں حالات میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ کوئی پناہ گزین بھکاری نہیں مگرلگتا ہے کہ اونروا فلسطینی پناہ گزینوں کو بھکاری بنانے پر تلا ہے۔