چند ہفتے قبل اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں نہتے فلسطینی مظاہرین کے خلاف طاقت کا بے دریغ استعمال کیا جس پر انڈونیشیا کی حکومت نے صیہونی ریاست پر سخت نکتہ چینی کی اور غزہ میں پرامن مظاہرین کے قتل عام کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ اس پر صیہونی ریاست نے غصے میں آ کر جوابی انتقامی اقدامات شروع کئے اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ شروع کردیا۔انتقامی حربوں میں انڈونیشیا کے شہریوں کے مقبوضہ فلسطین کے لیےÂ ویزوں کے اجراء کا روکا جاناÂ بھی شامل تھا۔ سو اسرائیل نے انڈونیشیا کے شہریوں کو ویزے دینے کا سلسلہ بند کردیا۔
حال ہی میں انڈونیشیا کے صدر کی مشاورتی کونسل کے ایک رکن نے اسرائیل کا دورہ کیا۔ اس دورے سے قبل ہی اسرائیل نے انڈونیشیا کے شہریوں کے ویزوں پر عائد کردہ پابندی غیراعلانیہ طور پر ختم کردی تھی۔
اسرائیلی اخبار ’ٹائمز آف اسرائیل‘ کے مطابق صیہونی ریاست کے وزیرخارجہ امانویل ناھشون نے ایک ’ٹویٹ‘ میں کہا کہ اسرائیل اور انڈونشیا کے درمیان غیراعلانیہ رابطے جاری ہیں اور مختلف عالمی چینلز کے ذریعے انڈونیشیا اور تل ابیب کے درمیان تعلقات معمول پرلانے کی مساعی جاری ہیں۔
ادھراسرائیل کی سیاحتی کمپنیوں اور ٹور رزم آپریٹرز نےÂ انڈونیشیا کے شہریوں کو بیت لحم، بیت المقدس، اریحا اور الخلیل شہروں کے سیاحتی ویزے جاری کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے۔
اخبار ’یروشلم پوسٹ‘ کے مطابق اسرائیل انڈونیشیا کے شہریوں کا ایک دوسرے کی ایک دوسرے کے ہاں آمد ورفت کی راہ ہموار ہوگئی تھی۔ گوکہ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات تو قائم نہیں مگردونوں ملکوں میں سیاحتی اور تجارتی روابط بیس سال پہلے سے چلے آرہے ہیں۔
اخباری رپورٹ کے مطابق 2017ء کے دوران 36 ہزار انڈویشی شہری اسرائیل آئے۔ اسی طرح 2016ء میں اسرائیل نے انڈویشیا سے 1 کروڑ 21 لاکھ ڈالر کا سامان درآمد کیا جب کہ اسی سال اسرائیل کی انڈویشیا سے برآمدات
اسرائیل اور انڈونیشیا کے باہمی تعلقات کی بحالی کی خبریں مقامی اخبارات میں بھی شائع ہوئی ہیں تاہم انڈونیشیا کی وزارت خارجہ نے اس بات کی تردید کی ہے کہ دونوں ملک ایک دوسرے کے شہریوں کو ویزے جاری کرنے جا رہے ہیں۔
وزارت خارجہ کے ترجمان ارمانٹا کریسٹیاوان ناصر نے کہا کہ ان کے ملک کا اسرائیل کے بارے میں موقف پہلے ہی کی طرح ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔ جب تک فلسطین آزاد نہیں ہوتا اس وقت تک اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ انڈونیشیا کے وزیر خارجہ ریٹنو مارسوڈی اور انسانی حقوق کے وزیر کے درمیان ہونے والی بات چیت میں صیہونی ریاست کے ساتھ رابطے نہ کرنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔
وزارت خارجہ کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ویزوں کا اجراء اور سفری سہولیات کی فراہمی وزارت انسانی حقوق کے زیرانتظام ایمی گریشن کے شعبے کے اختیارات میں ہے۔ اس طرح کے کسی بھی سوال کا جواب متعلقہ وزارت ہی دے سکتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ترجمان کا کہنا تھا کہ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے دورہ اسرائیل یا فلسطینی اراضی کے دورے کے لیے ویزوں پر پابندی اٹھالی گئی ہے۔ مذہبی بنیادوں پر عیسائیوں اور مسلمانوں کو مقدس مقامات کی زیارت کی اجازت دی جاتی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بھی قائم ہو رہے ہیں۔
ادھر انڈونیشیا کے صدر جوکو ویڈوڈوڈ کا کہنا ہے کہ ان کے مشیر کا دورہ اسرائیل نجی نوعیت کا دورہ ہےجس کا سرکاری پالیسی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ وہ اسرائیل میں کسی تقریب سے خطاب کرنے گئے تھے۔ ہماری حکومت فلسطینیوں اور قضیہ فلسطین کی پرزور حامی ہے۔
اسٹاقوف کے دورہ اسرائیل کے بعد سابق انڈونیشی صدر عبدالرحمان وحید بھی اسرائیل کے دورے پر گئے۔ مسٹر وحید کے اسرائیل کے ساتھ ماضی میں بھی اچھے تعلقات قائم رہے ہیں۔