سنہ 1967ء کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل کو پہلی بار اتنی بڑی فلسطینی عوامی مزاحمتی تحریک کا سامنا کرنا پڑا۔
آٹھ دسمبر 1987ء کو تحریک انتفاضہ اول کا آغاز غزہ کی پٹی کے علاقے جبالیا میں اسرائیلی فوج کی جانب سے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کے نتیجے میں چار فلسطینی مزدوروں کی گاڑی کو پیش آنے والے حادثے اور اس میں مزدوروں کی شہادت کے بعد ہوا۔ فلسطینی قوم نے صہیونی فوج کی طرف سے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو صہیونی ریاست کی دانستہ کارروائی قرار دیا جس کے نتیجے میں فلسطینیوں کی گاڑی حادثے کا شکار ہوئی۔ اس واقعے پر فلسطینی عوام میں غم وغصے کی ایک ایسی لہر اٹھی جس نے پورے فلسطین میں غاصب صہیونیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جبالیا شہر اور اس میں موجود تمام پناہ گزین کیمپوں میں لاکھوں شہری احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ صہیونی فوج پر سنگ باری شروع کی، شیشے کے ٹکڑوں اور پٹرول بموں سے حملوں کا آغاز کردیا۔ جواب میں صہیونی فوج نے نہتے فلسطینیوں پر براہ راست گولیاں چلائیں اور 21 سالہ نوجوان حاتم السیسی جام شہادت نوش کرگیا۔السیسی تحریک انتفاضہ اول کا پہلا شہید تھا۔
قومی یکجہتی
چار نہتے فلسطینیوں کی صہیونیوں کی کھڑی کی گئی رکاوٹوں نے فلسطینی قوم کو مشتعل ہی نہیں بلکہ انہیں باہم متحد بھی کردیا۔ قوم کے تمام طبقات سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکل کھڑے ہوئے اور پورا فلسطین صہیونی ریاست کے خلاف میدان جنگ میں تبدیل ہوگیا۔ کوئی بستی، کوئی قریہ، شہر اور گاؤں ایسا نہ رہاں جہاں سے صہیونی ریاست کے خلاف فلسطینی سر بکف نہ نکل کھڑے ہوں۔ ہرعمر اور متکب فکر سے وابستہ شہری مردو خواتین سب کی زبان پر صرف ایک ہی نعرہ تھا، غاصب صہیونیوں فلسطین سے نکل جائو اور لے کے رہیں گے آزادی‘۔ مگران نہتے فلسطینیوں کے ہاتھ میں اسلحہ بندوق، توپ، ٹینک یا ہوئی جہاز نہیں بلکہ غلیلیں، کنکر، پتھر یا زیادہ سے زیادہ پٹرول بم تھے۔ اگر کسی کے ہاتھ میں کوئی چاقو چھری آیا تو اس نے اسے اٹھالیا۔ تاہم نہتے فلسطینیوں نے اپنی تحریک کے مختلف مراحل میں خود کو مسلح کرنے کی بھی کوشش کی۔
تحریک انتفاضہ کے آغاز کے بعد پورے تسلسل اور دوام کے ساتھ روز مرہ کی بنیاد پر فلسطینی دیگر مصروفیات زندگی ترک کرکے احتجاجی مظاہرے منظم کرنے لگے۔ ایسے لگ رہاتھا Â کہ فلسطینی قوم نے اسے منہج زندگی بنا لیا ہے اور فلسطینی قوم غرب اردن سے بیت المقدس تک اور غزہ سے شمالی فلسطین تک ایک ہی مقصد کے لیے نکل کھڑ ے ہوئے۔ فلسطینی نواجوان قابض اور سفاک صہیونی فوج کے سامنے سینہ تان کر گولیوں کا استقبال کرتے، سینے میں گولیاں کھاتے مگر تحریک کو اپنی لہو سے مہمیز دیتے چلے گئے۔
فلسطینی کے عزم وبہادر اور جذبہ استقامت نے قابض صہیونیوں کو مایوس کردیا۔ فلسطینیوں کا غصہ تھا کہ ٹھنڈا ہونے کا نام نہیں لیتا تھا۔ فلسطینیوں کی تحریک انتفاضہ علاقائی اور قومی ذرائع ابلاغ سے نکل کرعالمی ذرائع ابلاغ کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ حتیٰ کہ امریکا کے ’سی بی سی‘ نیوز جیسے بڑے ٹیلی ویژن نیٹ ورک بھی فلسطینیوں کے پرعزم تحریک انتفاضہ کو کوریج دینے پر مجبور ہوئے۔
’ہڈیاں توڑ‘پالیسی
فلسطین میں تحریک انتفاضہ سال بہ سال بڑھتی اور پھیلتی چلی گئی تو دوسری طرف اسرائیل میں کبھی انتہا پسندوں کی اور کبھی لبرل عناصر کی حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں اور کبھی دونوں فریق ایک دوسرے کے ساتھ متحدہ ہوجاتے۔ آئزق شابیرا کے دور میں اسرائیل میں مخلوط حکومت قائم ہوئی ۔ اس وقت اسحاق رابین صہیونی ریاست کے وزیر دفاع تھے۔ مسٹر رابین نے فلسطینیوں کے خلاف ’ہڈیاں توڑ‘ پالیسی اپنانے کا اعلان کیا۔
جیسا کہ نام سے ظاہر ہےاس پالیسی کا مقصد فلسطینیوں کی تحریکا انتفاضہ کو طاقت کے ذریعے کچلناتھا۔ صہیونی فوج اور سیکیورٹی اداروں کو تحریک انتفاضہ کچلنے کے لیے ہرطرح کے طاقت کے حربے استعمال کرنے کی کھلی چھٹی دی گئی۔ طاقت کے وحشیانہ استعمال سے فلسطینیوں کے اجتماعی قتل عام کے واقعات رونما ہونا شروع ہوئے۔ ان میں 8 اکتوبر 1990ء کو مسجد اقصیٰ میں صہیونی فوج کے وحشیانہ قتل عام کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ قابض فوج نے طاقت کا وحشیانہ استعمال کرکے 21 فلسطینیوں کو موت کی نیند سلادیا۔ اس کے بعد فروری 1994ء کو مقبوضہ مغربی کنارے کے الخلیل شہر میں مسجد ابراہیمی میں ایک یہودی دہشت گرد نے حملہ کرکے 34 نمازی شہید کردیے۔
اس کے علاوہ تحریک انتفاضہ اول کے بڑے بڑے قتل عام کے واقعات میں ’نحالین، النصیرات کیمپ، الشیخ رضوان کالونی، الصبرہ کالونی، الدرج،غزہ شہر اور خان یونس قتل عام Â قابل ذکر ہیں۔
طاقت کے وحشیانہ استعمال کے دیگر حربوں میں فلسطینیوں کے خلاف کریک ڈاؤن ایک بڑا حربہ ثابت ہوا اور ہزاروں فلسطینیوں کو جیلوں میں بند کردیا گیا۔ غزہ کی پٹی میں ’انصار1‘، جزیرہ نما النقب کی جیل ،’انصار2‘، عوفر اور مجد نامی جیلیں فلسطینی تحریک انتفاضہ کے قیدیوں کو بند کردیا گیا۔ تمام فلسطینیوں کو بغیر مقدمہ چلائے پابند سلاسل رکھا گیا اور انہیں دوران حراست ہولناک اذیتیں دی جاتی رہیں۔
ایک اندازے کےمطابق 2 لاکھ فلسطینی تحریک انتفاضہ اول کے دوران حراست میں لیے گئے۔ ان میں سے 42 فلسطینیوں کو حراستی مراکز میں ڈال کر دوران قید اذیتیں دے کر شہید کیا۔
ابو جہاد کی شہادت
تحریک انتفاضہ اول نصف النہار پرتھی اسے کچلنے کے لیے صہیونی خفیہ ادارے’موساد‘ نے 16 اپریل 1998ء کو تحریک فتح کے دوسرے اہم رہ نما خلیل الوزیر المعروف ابو جہاد کو تیونس میں ایک قاتلانہ حملے میں شہید کردیا۔
صہیونی ریاست نے فلسطینیوں کی تحریک انتفاضہ کو کچلنے کے لیے ملک بدری کی ظالمانہ پالیسی اپنائی اور اس پالیسی کے تحت اسلامی جہاد اور حماس کے 417 رہ نماؤں اور کارکنوں کو جنوبی لبنان میں ملک بدر کردیا۔
فلسطینیوں کی تحریک انتفاضہ کے نتیجے میں صہیونی ریاست مذاکرات پر تو مجبور ہوئی مگر فلسطینی قیادت عالمی اوباشوں اور صہیونی ریاست کے دام فریب میں آگئی ہے۔ تحڑیک فتح اوراس کے سربراہ یاسر عرفات نے 13 ستمبر 1993ء کو ’اوسلو‘ معاہدے پر دستخط کرکے نہ صرف اسرائیل کو تسلیم کرلیا بلکہ اس سمجھوتے نے فلسطینی قوم کو باہم منقسم کرکے رکھ دیا۔ تحریک انتفاضہ اول نے فلسطینی قوم کو باہم متحد اور تمام طبقات کو یکجا کیا مگر قابض اسرائیل کے ساتھ سمجھوتےنے فلسطینیوں کو دھڑوں میں تقسیم کرنے کے سوا اور کچھ نہیں دیا۔
تاریخ کا اعادہ
فلسطینی قوم سنہ 1987ء کے بعد اب تک تین بڑی انتفاضہ تحریکوں سے گذری ہے۔ سنہ 1987ء کی تحریک انتفاضہ سنہ 1994ء تک جاری رہی۔ سنہ 2000ء میں تحریک انتفاضہ الاقصیٰ کا آغاز ہوا۔ یہ دوسری عوامی بیداری کی تحریک تھی جو سنہ 2006ء تک جاری رہی۔ اس تحریک نے بھی قابض صہیونی ریاست کے جبرو تشدد کے کئی مظاہر دیکھے مگر فلسطینیوں نے اپنی آواز دنیا کے کونے کونے تک پہنچائی۔
یکم اکتوبر 2015ء کو فلسطین کے مقبوضہ بیت المقدس سے دفاع قبلہ اول اور القدس سے یکجہتی کے لیے ایک نئی تحریک اٹھی۔ اہل فلسطین اس تحریک کو ’انتفاضہ القدس‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ یہ تحریک ایک سال سے زاید عرصے سے جاری ہے۔ تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔ جن وسائل کے ساتھ فلسطینی قوم نے سنہ 1987ء کی تحریک انتفاضہ اولیٰ کا آغاز کیا تھا آج ایک بار پھر فلسطینی انہی وسائل، کنکروں ، پتھروں، غلیلوں، چاقوؤں اور پٹرول بموں سے دشمن کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ گذشتہ چودہ ماہ کے دوران دو سو سے زاید فلسطینی جام شہادت نوش، دو ہزار سے زاید زخمی اور ہزاروں کو گرفتار کیا جا چکا ہے مگر فلسطینی قوم قربانیوں، عزم اور عزیمت کی تاریخ کو ایک بار پھر دہرا رہی ہے۔ جس نسل نے پہلی تحریک انتفاضہ کے Â ساتھ دشمن کے خلاف ہاتھ میں سنگ اٹھایا تھا۔ آج ان کی اولاد ان کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔