نابلس (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) بالآخر امریکا نے اپنی خوئے انتقام کی زہر مزید اگل دی اور فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے مختص مالی امداد مکمل طور پر بند کرنے کا اعلان کردیا۔
گذشتہ جمعہ کو امریکی انتظامیہ نے باضابطہ اور سرکاری طور پر فلسطینی پناہ گزینوں کے ذمہ دار ادارے ’اونروا‘ کی امداد مکمل طور پر بند کرنے کا اعلان کیا۔امریکا کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد کی بندش کے براہ راست منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ سب سے پہلے امریکی انتقام کا اثر تعلیمی اداروں پر مرتب ہوگا۔ ’اونروا‘ کے زیرانتظام چلنے والے تعلیمی ادارے، اسکول، جامعات اور دیگر تعلیمی مراکز بند ہوجائیں گے۔ ان اداروں سے وابستہ اساتذہ اور دیگر انتظامی عملہ تنخواہوں سے محروم ہوجائے گا۔
مشرقی نابلس میں بلاطہ پناہ گزین کیمپ کے فلسطینی مہاجرینک کا کہنا ہے کہ انہیں امریکا کی طرف سے امداد کی بندش کے اعلان نے بہت خوف زدہ کیا ہے۔ وہ ایک نئے اور پریشان کن بحران سے دوچار ہوسکتے ہیں اور ان کا مستقبل تباہ ہوسکتا ہے۔
پناہ گزین کیمپ کے ایک سماجی کارکن اور تنظیموں کے باہمی رابطہ کار عماد اشتیوی کا کہنا ہے کہ ’اونروا‘ کی طرف سے پہلے ہی فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد کو کئی کٹ لگائے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی شہری ’اونروا‘ کی پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ پناہ گزینوں کے صحت اور تعلیم کے شعبے غیرمعمولی اور غیرمسبوق حد تک متاثر ہو رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اونروا‘ نے پہلے ہی فلسطینی پناہ گزینوں کے صحت اور تعلیم کی کئی سروسز بند کردی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پناہ گزین کیمپوں کے تعلیمی ادارے متاثر اور بچے غربت کا شکار ہو رہے ہیں۔
عماد اشتیوی کا کہنا ہے کہ بلاطہ پناہ گزین کیمپ میں ’اونروا‘ نے 700 طلباء طالبات کو داخلہ دینےسے انکار کر دیا۔ ’اونروا‘ نے دعویٰ کیا کہ جن بچوں کو اسکولوں میں داخلے سے روکا گیا ہے عام فلسطینی شہریوں کے ہیں، پناہ گزینوں کے نہیں۔ اسی طرح اردن میں ’اونروا‘ کی انتظامیہ نے تعلیمی اداروں اور دیگر مراکز سے وابستہ ملازمین کو قبل ازوقت ریٹائر کرنا شروع کر دیا۔
بلاطہ پناہ گزین کیمپ میں ایک بوائز اسکول کے استاد نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ تین روز کے دوران ’اونروا‘ کی انتظامیہ نے فلسطینی ملازمین کو ملازمتوں سے نکالنے کا جس بے دردی کے ساتھ سلسلہ شروع کیا ہے اس نے پناہ گزین ملازمین کو ایک نئے خو اور تشویش میں ڈال دی ہے۔
ایک مقامی شہری فادی مسیمی نے کہا کہ وہ پرانے عسکر پناہ گزین کیمپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کا کہناÂ ہے کہ ’اونروا‘ کی امداد بند کرنا امریکا کی انتقامی پالیسی ہے۔ امریکا کے اس انتقام کے پیچھے امریکا کا سیاسی انتقام ہے جس کا ہدف صرف فلسطینی پناہ گزین نہیں بلکہ پوری قوم ہے۔
اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے رہنما سامی ابو زھری نے کہا کہ امریکی امداد بند کرنا فلسطینی حق واپسی کو ختم کرنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ امریکا نے ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ وہ فلسطینی قوم اور پوری مسلم امہ کا بدترین دشمن ہے۔ تاہم فلسطینی قوم امریکا کی طرف سے ’اونروا‘ کی امداد بند کرنے کے ظالمانہ فیصلے کوقبول نہیں کرے گی اور نہ ہی کسی قسم کے دباؤ کا شکار ہوگی۔
خیال رہے کہ ’اونروا‘ ایجنسی کے ہاں فلسطینی پناہ گزینون کے کل 58 کیمپ رجسٹرڈ ہیں۔ ان میں 19 مقبوضہ مغربی کنارے،8 غزہ، 10 اردن، 9 شام اور 12 لبنان میں قائم ہیں۔
ان پناہ گزین کیمپوں میں رہنے والے فلسطینیوں کی تعداد 54 لاکھ ہے۔ ہزاروںÂ فلسطینیوں کی طرف سے ’اونروا‘ کی خدمات حاصل نہیں کی گئیں۔