انٹرنیشل القدس فاؤنڈیشن نے بیت المقدس پر صہیونی ریاست کے ناجائز تسلط کے 50 سال پورے ہونے کی مناسبت سے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے۔ اس رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ صہیونی ریاست اور اس کے نام نہاد تمام ذیلی ادارے، صہیونی انتہا پسند تنظیمیں بیت المقدس کو یہودیانے کے لیے دن راست سرگرم ہیں مگر شہر کے دفاع اور اسے یہودیت سے بچانے کے لیے کوششوں میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔
خطرے کے چارعوامل
رپورٹ میں بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کو درپیش خطرات کو چار بنیادی عناصر میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ان میں پہلا عنصر اسرائیل میں سیاست اور اقتدار پر دائیں بازو کے انتہا پسندوں کا قبضہ اور مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی پرچارک تنظیموں کی اجارہ داری۔ دوسراخطرہ یہودیوں کے وہ فتاویٰ ہیں جن میں یہودی آبادکاروں کے مسجد اقصیٰ میں داخلے پرعاید پابندی نہ صرف اٹھا دی گئی ہے بلکہ یہودیوں کو باضابطہ طورمنظم مہمات کے ذریعے بیت المقدس میں داخل ہونے اور حرم قدسی میں مذہبی رسومات کی ادائی کی ترغیب دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکا کا القدس اور مسجد اقصیٰ کے بارے میں بدلتا موقف جس میں القدس کو متنازع علاقہ قرار دینے کے بجائے اب اسرائیل کا مستقل دارالحکومت قراردینے کی کوششیں شامل ہیں، کسی بڑے خطرے سے کم نہیں۔
چوتھا اور انتہائی خطرناک عنصر بیت المقدس میں آثار قدیمہ کی آڑ میں جاری کھدائیاں ہیں۔ صہیونی ریاست نے جعلی اور من گھڑت دعوؤں کے تحت مسجد اقصیٰ کے اطرف میں یہودی کھنڈرات کی تلاش کے لیے سرنگیں کھودنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ اس خطرناک عنصر کا ایک پہلو سیاحت ہے اور صہیونی ریاست نام نہاد سیاحت کےفروغ کے لیے بیت المقدس میں یہودیوں کے کھنڈرات ثابت کرنا چاہتی ہے۔ کھدائیوں کی آڑ میں سنہ1967ء کی جنگ سے قبل بیت المقدس کی وہ تمام تاریخی علامات اور آثار مٹائے جا رہےہیں جو صدیوں سے القدس کی اسلامی تشخص کی واضح نشانیاں تھیں۔
رپورٹ میں عالمی برادری کی جانب سے بیت المقدس کے معاملے میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرنے پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ عالمی برادری کی خاموشی اسرائیلی ریاست کو القدس کی شناخت بدلنے کا موقع ہی نہیں بلکہ حوصلہ افزائی بھی کررہی ہے۔
کم زور ہونے والے دفاعی عوامل
رپورٹ میں تصویر کا دوسرا رخ یعنی بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کےدفاع کے لیے بروئے کار جانے والے عوامل کا کم زور پڑنا ہے۔ اس رپورٹ میں ان عوامل پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
یہ بھی چار عوامل ہیں۔ ان میں پہلا عنصر مزاحمت ہے۔ فلسطین پر برطانوی استبداد کے قبضے کے بعد پانچ بنیادی تحریکیں چلائی گئیں اور ان سب کا مرکزی عنوان مسجد اقصیٰ تھی۔ ان میں دو برطانوی استبداد کے دور میں اور تین قیام اسرائیل کے بعد۔ برطانوی دور میں سنہ 1920ء کو النبی موسیٰ انتفاضہ اور 1929ء کو ’بغاوت براق‘ کے عنوان سے تحریک چلی۔ ان دونوں تحریکوں کا ہدف مسجد اقصیٰ کے خلاف صہیونیوں کی یلغار کو روکنا تھا۔ قیام اسرائیل کے بعد النفق تحریک 1996ء، انتفاضہ الاقصیٰ 2000ء اور انتفاضہ القدس 2015ء سر فہرست ہیں۔
قیام اسرائیل کےبعد جب بھی صہیونی ریاست کے مظالم کے خلاف کوئی جامع تحریک اٹھی تو اس میں القدس اور مسجد اقصیٰ کو مرکزی حیثیت کا درجہ دیا گیا۔ پچھلی تین دہاہیوں میں تسلسل کے ساتھ دفاع قبلہ اول کے لیے فلسطینی عوام میدان عمل میں مصروف جہاد رہے مگر فلسطینی قوم کی یہ تحریکیں قبلہ اول کے دفاع کے لیے وہ کچھ نہیں کرسکیں جو وقت کا تقاضا ہے کیونکہ ان تحریکوں کے مقابلے میں صہیونی جس منظم اور تیز رفتاری سے القدس اور مسجد اقصیٰ کے لیے خطرات پیدا کررہےہیں وہ غیر معمولی اور غیر مسبوق ہیں۔
دوسرا عنصر قبلہ اول کے دفاع میں فلسطینی قوم کے اتحاد کا فقدان رہا ہے۔ سنہ 2000ء کے بعد عملا غزہ کی پٹی کےعلاقے کو فلسطین کے دوسرے علاقوں سے تنہا کردیا گیا۔ یوں اس علاقے کی آبادی کو دفاع قبلہ اول کے لیے موثر انداز میں کام کرنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ سنہ 2003ء میں غرب اردن کو بیت المقدس سے الگ کردیا گیا۔ فلسطینی علاقوں کی یہ تقسیم اسلامی تحریک اور دفاع قبلہ اول کے لیے جاری ربط کو توڑنے کے لیے عمل میں لائی گئی۔ پیچھے سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں کے فلسطینی باقی بچ گئے۔ ان کی قبلہ اول اور القدس تک رسائی روکنے کے لیے چیک پوسٹیں، پولیس رکاوٹیں، ناکے اور دیوار فاصل جیسے حربے اختیار کیے گئے۔ ان تمام قابضانہ اور احتلالی حربوں کا مقصد فلسطینی قوم کو عملا مسجد اقصیٰ اور القدس سے دور کرنا تھا اور دشمن کافی حد تک اپنی اس سازش میں کامیاب رہا۔
تیسرا عنصر اردنی محکمہ اوقاف کا کردار ہے۔ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ سمیت حرم قدسی کے دفاع کی تمام ترذمہ داری فلسطینیوں سے پہلے اردن پر عاید کی گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اردنی محکمہ اوقاف تساہل کا شکار ہوتا گیا جس کا فائدہ صہیونی ریاست نے اٹھایا اور اس نے مختلف حیلوں بہانوں سے حرم قدس میں اپنے پنجے مزید مضبوط کرنا شروع کیے۔ اپنی پولیس تعینات کی اور مسجد اقصیٰ میں فلسطینی شہریوں کو نماز کی ادائی سے روکا جانے لگا۔
دفاع قبلہ اول کے حوالے سے کمزور پہلوؤں میں چوتھا پہلو عالمی برادری کی طرف سے سامنے آیا۔ اگرچہ سنہ 1967ء کو بیت المقدس پراسرائیلی قبضے اور سنہ 1969ء کو مسجد اقصیٰ کو نذرآتش کرنے کی سازش، سنہ 1980ء کو القدس اسرائیل میں ضم کرنے کے اسرائیلی اعلان، 1990ء کو مسجد اقصیٰ میں قتل عام، 1996ء کو النفق تحریک اور سنہ 2000ء میں سابق وزیراعظم ارئیل شیرون کا اپنی سپاہ کے ہمراہ قبلہ اول پر دھاوے کی زبانی کلامی عالمی سطح پر مذمت کی گئی مگر دفاع قبلہ اول کے لیے جس منظم مہم اور موثر حکمت عملی کی اشد ضرورت تھی اس کا فقدان رہا۔
اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے’یونیسکو‘ جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل اور دیگر اداروں کی طرف سے بھی بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ کے حوالے سے قراردادیں منظور کی جاتی رہیں۔ مگر یہ تمام کوششیں نقش برآب ثابت ہوئیں۔
اس وقت نہ صرف مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کو یہودیانے کی سازشیں کی جا رہی ہیں بلکہ فلسطین کے اسلامی تشخص پر یہودیت کا غلاف چڑھانے کی منظم سازشیں ہو رہی ہیں۔ مکہ اور مدینہ کی طرح القدس بھی عالم اسلام کے لیے دل کا درجہ رکھتا ہے۔ اس کے تشخص اور تقدس کا دفاع اسی طرح مسلم امہ پرواجب ہےجیسا کہ حرمین شریفین کا ناگزیر ہے۔ گوکہ دفاع القدس کی جنگ کافی طویل ہوگی مگر عالم اسلام کی طرف سے اس کے دفاع کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے لگتا ہے کہ عالم اسلام دانستہ اور غیر ارادی کمزوریوں کا شکار ہے۔