ترک سلطان بیا زید اول نے ترک سطلنت کی سرحدیں وسیع کرنے کا سلسلہ جاری رکھا یہاں تک ترک فوجیں القدس میں جا پہنچیں اور رومن فوج کے ساتھ ‘نیکو پولی‘ کا معرکہ شروع ہوا۔ اس جنگ میں رومن فوج کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ترک فوج نے رومن فوج کے بڑے بڑے عہدیدار اور شہزادے گرفتار کرلیے۔
القدس پرترک فوج کا کنٹرول
خلافت عثمانیہ کی ترک فوج نے یوری ملکوں میں اپنی فتووحات کا سلسلہ جارہ رکھا۔ عثمانی خلیفہ سلیم اوّل نے پیچھے پلٹ کر عالم اسلام پر نگاہ دوڑائی تو انہوں نے دیکھا کہ صفوی سلطنت عراق تک پھیل چکی ہے جبکہ ممالک مصر اور شام میں اپنی قیادت کھو رہے ہیں۔
سلطان سلیم اول نے اپنی فوجی قوت شام کے حلب کی طرف موڑی۔ ممالیک اور عثمانی لشکر کے درمیان مرج دابق کے مقام پر ٹکراؤ ہوا۔ عثمانی فوج کو فتح ہوئی اور سنہ 923ھ میں سلطان سلیم اول القدس کی طرف روانہ ہوگئے۔ انہوں نے بیت المقدس کی دیواروں کی تجدید اور تعمیر کا عزم کیا تاہم زندگی نے ان سےوفاء نہ کی اور ان کا مشن ادھورا رہا جسے ان کے بیٹے نے مکمل کیا۔
القدس سلطان سلیمان القانونی کے دور میں
اگرچہ خلافت عثمانیہ کی فتوحات ویانا تک پہنچ چکی تھیں مگر ترک خلیفہ سلطان سلیمان القانونی نے القدس کی طرف زیادہ توجہ دی۔ انہوں نے مسجد اقصیٰ اور اس کے دیواروں کی تعمیر نو کرائی، القدس کی دیواریں بنوائیں اور شہر میں رفاع عامہ کے کئے کام کیے۔
عہد عثمانی میں القدس کی مشکلات
خلافت عثمانیہ کے آخری عہد میں بیت المقدس میں بد انتظامی عام ہوگئی تھی۔ یہ خلافت عثمانیہ کی کمزوری اک نتیجہ تھی۔ اس کمزوری نے القدس کے باشندوں کے لیے کئی بحران اور مسائل بھی کھڑے کیے۔
خلافت عثمانی کے دور میں یہودی سکہ رائج الوقت تھے۔ روس نے انہیں مزید تحفظ دیا۔ اس کے بعد برطانیہ نے بھی یہودیوں کو القدس اور دیگر فلسطینی علاقوں میں منتقل کرنے میں ان کی مدد کی۔
فرانس اور انگلیڈ نے بھی یہودیوں کو فلسطین کی طرف دھکیلا۔ خلافت عثمانیہ کے یہودیوں کی وفاداریاں تبدیل کی گئیں اور یہودیوں کو دوسرے ملکوں کا وفادار بنانے کی کوششیں شروع کی گئیں۔
محمد علی الکبیر کا القدس پر کنٹرول
محمد علی الکبر نے اپنی زیر نگرانی ایک نئی سلطنت قائم کرنے کی کوشش کی۔ مصریوں نے فرانسیسیوں اور انگریزوں کے خلاف مزاحمت کی۔ بالاخر مصر کے علماء نے 1803ء میں علی الکبیر کو القدس کا کنٹرول سونپ دیا۔
اس کے بعد محمد علی الکبیر نے شام کی توجہ دی اور اپنے بیٹے ابراہیم پاشا کو ایک لشکر دے کر روانہ کیا۔ سنہ 1831ء میں القدس اس کی خلافت کا حصہ بن گیا۔
محمد علی الکبیر نے نہ صرف مصری فوج پر اکتفا کیا بلکہ شام میں جبری بھرتی شروع کی اور لوگوں کے پاس موجود اسلحہ ان سے لینا شروع کردیا۔ اس کے نتیجے میں القدس، الخلیل، غزہ اور یافا میں انقلاب برپا ہوگیا۔ خلافت عثمانیہ نے اس عزائم ناکام بنا دیے اور دس سال کے بعد اپنی فوج کے ساتھ القدس سے نکل گیا۔
القدس کی عثمانیہ کو واپسی
ترک خلیفہ سلطان عبدالمجید محمود دوم کے دور میں القدس میں مسلمانوں کی تعداد 20 ہزار تھی جب کہ ایک ہزار عیسائی تھے۔
روس اور خلافت عثمانیہ میں 1856ء کی جنگ قرم میں عثمانی فوج نے انگلینڈ اور فرانس کی معاونت سے روس کو شکست دی۔ اس تعاون کے بدلے میں القدس میں فرانسیسی اور برطانوی قونصل خانوں پر ان کے ملکوں کے پرچم لہرانے کی اجازت دی گئی۔ اس پر القدس کے عثمانی گورنر کامل پاشا کے خلاف عوام اٹھ کھڑے ہوئے۔
سلطان عبدالعزیز کے دور میں القدس میں کئی تعمیراتی کام ہوئے۔ ان میں سڑکوں کی تعمیر، ان کی کشادگی، بازاروں کی تعمیر اور دیگر تعمیرات شامل تھیں۔ یہاں تک کہ القدس کی آبادی 68 ہزار نفوس تک جا پہنچی۔
سلطان عبدالحمید دوم کا دور
ترک خلیفہ سلطان عبدالحمید دوم فلسطین میں یہودی آباد کاری کی سازش کو بھانپ گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے صہیونی لیڈر تھیوڈر ھرٹزل کی یہودیوں کی فلسطین کی طرف نقل مکانی کی درخواست مسترد کردی۔
سلطان عبدالحمید دوم نے ہرٹزل کو صاف صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ وہ فلسطین کی ایک انچ بھی یہودیوں کو دینے کے لیے تیار نہیں۔
سلطان عبدالحمید نے فلسطین میں یہودیوں کا داخلہ روکنے کے لیے قانون سازی کی۔ کوئی یہودی زائر یا عبادت کی غرض سے اگر فلسطین میں جاتا اس کے لیے 50 ترک لیرہ ادا کرنا لازمی تھا۔ اس کی ایک شرط یہ بھی تھی کہ فلسطین میں آنے والا کوئی بھی یہودی 31 دن سے زیادہ وہاں قیام نہیں کرے گا۔
ان کے دور میں بیت المقدس سے یافا کے درمیان ریلوے لائن بچھائی گئی۔ یورپی ملکوں نے خلافت عثمانیہ کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے القدس میں اپنے قونصل خانے کھول لیے جس کے نتیجے میں القدس میں غیرملکیوں کی آمد ورفت میں اضافہ ہوگیا۔
فلسطین کا خلافت عثمانیہ سے ربط ختم
پہلی جنگ عظیم 1914ء میں شروع ہوچکی تھی۔ اس جنگ میں ترکی جرمنی کے ساتھ مل کر برطانیہ ، فرانس اور اس کےحلیفوں کا مقابلہ کررہا تھا۔ اکتوبر 1918ء کو جنگ کے اختتام پر ترک خلافت کو بھی شکست ہوئی۔
جنوری 1919ء میں فرانس نے اپنا فیصلہ مسلط کرنے کے لیے ایک سپریم کونسل کے قیام کا اعلان کیا۔ اس کونسل نے فیصلہ کیا کہ خلافت عثمانیہ سے چھینے گئے عرب علاقے ترکی کو واپس نہیں کیے جائیں گے۔
اسی سال اپریل میں برطانیہ کو فلسطین پر قبضے کا حق سونپ دیا۔ 24 جولائی 1922ء کو لیگ آف نیشنز نے بھی فلسطین پر برطانوی استبداد کی حمایت کردی۔
دست اگست 1920ء کو ’معاہدہ سفیر‘طےپایاجس کے تحت فلسطین پر ترک خلافت کی عمل داری مکمل طورپر ختم کردی گئی۔
اتفاق یا سوچا سمجھا منصوبہ
آج سے ٹھیک ایک سو سال پہلے دسمبر 1917ء کو بیت المقدس پر انگریز فوج نے قبضہ کیا۔ آج اس قبضے کے ٹھیک ایک صدی بعد آج ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی القدس کو فلسطین میں قائم کردہ غیرقانونی یہودی ریاست کا دارالحکومت قرار دیا ہے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے یا سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔