رپورٹ میں ماہرین کی آراء کی روشنی میں انہی سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔
جمعرات کی شام بیت المقدس کے نواحی علاقے خان الاحمر میں قابض صیہونی فوج نے جس سفاکیت کے ساتھ مقامی فلسطینی بدو آبادی پر جو ظلم کیا پوری دنیا اس کی چشم دید گواہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ’خان الاحمر‘ ان 45 فلسطینی قصبوں میں شامل ہے جنہیں صیہونی ریاست کچھ عرصے سے خالی کرانے کے لیے مختلف حربے استعمال کررہی ہے۔ صیہونی فوج نے وادی اردن میں جبل قاحل کی چوٹی پر آباد اڑھائی سو فلسطینیوں کے 45 گھروندے مسمار کرنے کا نوٹس 25 مئی کو جاری کیا تھا۔ اسرائیلی فوج اور پولیس نے نہ صرف فلسطینیوں کے گھر مسمار کردیے بلکہ وہاں پر موجود درخت اکھاڑ پھینکے اور فلسطینیوں کی فصلیں اور باغات بھی تباہ کردیے۔
صیہونی ریاست کے دو مقاصد
فلسطینی تجزیہ نگار خلیل التفکجی نے بتایا کہ القدس اور وادی اردن میں فلسطینی بدو عرب آبادی کوبے دخل کرنے کے صیہونی ریاست کے دو اہم مقاصد ہیں۔
ایک مقصد مقامی نوعیت کا ہے جسے دوسرے الفاظ میں صیہونی ریاست کے ’ویژن 2050‘ کا نام دیا گیا ہے جب کہ اسی منصوبے کے لیے پروجیکٹ 5800 کی اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔
اس ویژن کے تحت صیہونی ریاست غرب اردن، وادی اردن اور القدس کے علاقوں پر مشتمل ایک وسیع تعمیراتی منصوبہ شروع کرنا چاہتی ہے جس میں ایک بڑا بین الاقوامی ہوائی اڈہ، ریلوے لائن، صنعتی زون، تجارتی اور سیاحتی مراکز، ہوٹل اور دیگر تعمیرات شامل ہیں۔ ہوائی اڈے کے لیے ’النبی موسیٰ‘ کے مقام کا انتخاب کیا گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تکمیل کے بعد اس ہوائی اڈے سے 35 ملین افراد سالانہ سفر کریں گے. 12 ملین سیاح اس کے علاوہ ہیں جو اس ہوائی اڈے کا استعمال کریں گے۔
یہ منصوبہ ’عظیم تر اسرائیل‘ کے پروجیکٹ کا دوسرا نام بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ روکنا اورمشرقی بیت المقدس کو فلسطینی دارالحکومت بنانے کی مساعی کو ناکام بنانا ہے۔
دوسرا ہدف علاقائی نوعیت کا ہے۔ اسرائیل خود کو مشرق وسطیٰ اور یورپ کے درمیان سنگھم قرار دینا چاہتا ہے۔ صیہونی ریاست اردن کے ساتھ رابطے کے لیے استعمال ہونے والے شاہ عبداللہ پل (جو فی الحال بند ہے) مشرقی اردن کے راستے یورپ سے ملانا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ صیہونی ریاست یافا اور القدس کے درمیان ساحلی گذرگاہ کو 2019ء میں کھول رہا ہے۔ اس کے بعد النبی موسیٰ، وادی اردنÂ اور مجوزہ ہوائی اڈے کے قیام کے لیے کام شروع کرنے کی کوششوں کی تیاری کی جا رہی ہے۔
پرانا منصوبہ
خلیل تفکجی کا کہنا ہے کہ خان الاحمر، وادی اردن اور القدس میں رہائش پذیر فلسطینیوں کو بے دخل کرنا کوئی نیا حربہ نہیں بلکہ صیہونی ریاست کا ایک پرانا منصوبہ ہے۔
صیہونی ریاست اپنے توسیع پسندانہ منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لیے فلسطینی بستیوں ک تختہ مشق بنا رہا ہے۔ صیہونی ریاست وادی اردن کے مغرب میں رہنے والے فلسطینی بدوؤں کو دیوار فاصل میں بند کر کرکے مشرقی سمت کے علاقوں کو اپنی بالادستی میں لانا چاہتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پہلے پہل تو اسرائیلی حکومت فلسطینی بدو عرب آبادی کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز کرتی رہی ہے اور فلسطینیوں کی بے دخلی کا سلسلہ رفتہ رفتہ آگے بڑھتا رہا ہے مگر حال ہی میں جب امریکی حکومت نے فلسطین میں صیہونی ریاست کو کھل کھیلنے کا موقع دینے کے ساتھ ساتھ مکمل سرپرستی کرنا شروع کی ہے تو قابض ریاست نے فلسطینی عرب آبادی پر عرصہ حیات تنگ کردیا ہے۔
سیکٹر ’C‘ کو یہودیانے کا منصوبہ
قابض صیہونی ریاست مشرقی بیت المقدس بالخصوص اوسلو معاہدے کے تحت بنائے گئے’سیکٹر C‘ کو یہودیانا چاہتا ہے۔ اس سیکٹر میں غرب اردن کی 28 فی صد اراضی شامل ہے۔ صیہونی حکومت نے کچھ عرصہ پیشتر اس سیکٹر میں ’E1‘ کے نام سے ایک نئی ہاؤسنگ اسکیم شروع کرنے کی منظوری دی تھی۔ نقشے کے اعتبار سے یہ کالونی مشرقی بیت المقدس سے دریائے اردن کے کنارے تک پھیلی ہوئی ہے۔
اسرائیلی فوج نے گذشتہ دو سال کے دوران ’سیکٹر سی‘ میں فلسطینیوں کے 75 فی صد مکانات مسمار کردیے۔ گذشتہ بدھ کو بھی اسرائیلی فوج نے ابو نوار قصبے میں فلسطینیوں کے دسیوں کچے مکانات بلڈوز کیے۔