مظلومیت کی علامت العراقیب گاؤں
اسرائیل جنوبی فلسطین کے ان عرب دیہاتوں کے باشندوں کو صدیوں سے وہاں قیام پذیر ہونے کے باوجود غیر ریاستی باشندے قرار دے کروہاں سے نکالنا اوران کی املاک پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ اگرچہ یہ سلسلہ سنہ 1948ء کے بعد سے مسلسل جاری ہے مگر حالیہ چند برسوں سے جزیرہ نما النقب کے علاقوں میں صیہونی جارحیت میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ جولائی 2010ء کے بعد سے اب تک العراقیب گاؤں میں فلسطینی عرب باشندوں کے سیکڑوں مکانات کو کئی بار گرایا گیا ہے۔ فلسطینیوں کے پاس اس کا کوئی متبادل نہیں ہے اور نہ ہی صیہونی ریاست انہیں کوئی اس کا متبادل مقام دینا چاہتی ہے۔ اس لیے مظلوم شہری دوبارہ وہیں اپنی مسمار شدہ جھونپڑیوں کے ملبے پر تنکے چن کر پھر آشیاں بندی کر لیتے ہیں۔ کچھ دنوں بعد انہیں پھر مسمار کردیا جاتا ہے۔
العراقیب جزیرہ نما النقب کی ان 51 بستیوں میں سے ایک ہے جنہیں صیہونی حکومت نے غیرقانونی قرار دے رکھا ہے اور وہاں پر رہنے والوں کے کچے مکانات اور جھونپڑیاں آئے روز مسمار کی جاتی ہیں۔ مجموعی طورپر جزیرہ النقب میں اڑھائی لاکھ فلسطینی عرب بدو آباد ہیں۔ اسرائیل ان فلسطینیوں کو غیرقانونی باشندے قرار دیتا ہے۔
العراقیب گاؤں جزیرہ نما النقب میں واقع ہے۔ یہ جزیرہ کل فلسطینی رقبے کا 40 فی صد ہے جس کا کل رقبہ 12 ہزار 577Â مربع کلو میٹر ہے اور اس میں دو لاکھ فلسطینی آباد ہیں۔ اسرائیل اس جزیرے کی فلسطینی آبادی کو آٹھ دیہاتوں تک محدود کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
نسل پرستانہ پالیسی
الشیخ الطوری کا کا کہنا ہے العراقیب گاؤں کی بار بار مسماری، مقامی فلسطینیوں کی جبری ھجرت، شہری حقوق سلب کرنا سب صیہونی ریاست کیÂ نسل پرستانہ پالیسی کا تسلسل ہے۔ کوئی عقل مند کسی قوم کے شہری حقوق سلب نہیں کرسکتا۔ ہم صحراء النقب کے مستقلÂ باشندے ہیں اور اسرائیل ہمارے حقوق غصب کر رہا ہے۔
الطوری نے کہا کہ صیہونی ریاست باقاعدہ نسل پرستی اور نوآبادیاتی نظام کے تحت فلسطینی عرب باشندوں کو ان کے وطن اورشہروں سے بے دخل کررہی ہے۔ تاہم صیہونی ریاست کو فلسطینیوں کی مکانات مسماری کی پالیسی بری طرح ناکام ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ العراقیب گاؤں کی مسلسل مسماری کے نتیجے میں مقامی فلسطینی آبادی کی اندرون اور بیرون ملک سے حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم نے نہیں سنا کہ دنیا میں کوئی ایسا گاؤں بھی ہے جسے ایک غاصب حکومت نے 132 بارمسمار کیا ہو۔
جعلی مقدمات کی بھرمار
العراقیب گاؤں کے مقامی باشندوں کو وہاں سے بے دخل کرنے کے لیے جہاں طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے وہیں ان کے خلاف جعلی مقدمات قائم کرکے انہیں دباؤ میں لانے کی مذموم کوشش کی جاتی ہے۔
الشیخ الطوری کا کہنا ہے کہ مقامی فلسطینی آبادی کو خوف زدہ کرنے اور انہیں العراقیب گاؤں خالی کرانے پرمجبور کرنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق چند سو فلسطینیوں کے خلاف 75 ہزار مقدمات قائم ہیں، تاہم ہمیں صیہونیوں کے ان مکروہ حربوں کے دباؤ سے خوف زدہ نہیں ہوں گے اور اپنے وطن کی مٹی کو نہیں چھوڑیں گے۔
بزرگ فلسطینی رہنما نے کہا کہ ہماری شناخت، ہمارا تشخص، تہذیب اور ہماری بقاء کی علامت العراقیب گاؤں ہے۔انہوں نے بتایا کہ سنہ 1998ء کے بعد وہ صیہونی غاصبوں کی طرف سے سیکڑون جعلی مقدمات بھگت چکے ہیں۔ ملکیت اراضی کے ان کے کیسز کو سنہ 2019ء تک ملتوی کرنے کا کہا گیا مگر ہم نے اسے مسترد کردیا ہے۔ ہم صیہونیوں کو بتا رہے ہیں کہ ہم اپنے آباؤ اجداد کی سرزمین کو نہیں چھوڑیں گے۔ ہمارا جینا اور مرنا اور ہماری اولادوں کا مستقبل بھی اسی سے وابستہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر العراقیب گاؤں کو 1300 بار بھی مسمار کیا جائے تو ہم انشاء اللہ اسے دوبارہ تعمیر کریں گے اور کسی بھی قیمت، دھونس، طاقت اور جارحیت کے سامنے نہیں جھکیں گے۔