مقبوضہ بیت المقدس (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) قبلہ اوّل کے تاریخی دروازوں میں ایک مشہور زمانہ دروازہ ’باب الساھرہ‘ کے نام سے مشہور ہے۔ باب الساھرہ کے دیدار کا شرف حاصل کرنے والے خوش ںصیب اس کے جادوئی اور سحر طاری کردینے والے طرز تعمیر سے متاثر ہوئے نہیں رہ سکتے۔
جغرافیائی اعتبار سے باب الساھرہ پرانے بیت المقدس کی شمالی دیوار کے ساتھ باب العامود کے مشرق میں واقع ہے۔ اس دروازے سے اندر داخل ہونے کے بعد حارۃ السعدیہ اور حارۃ بابÂ حطہ واقع ہے۔باب الساھرہ قبلہ اوّل کے دیگر تاریخی مقامات کی طرح یہودیانے کی زد میں ہے۔
قبلہ اوّل کے سیاحتی اور تاریخی آثار کے ڈائریکٹریوس النتشہ نے باب الساھرہ کی تاریخی اہمیت اور اسے لاحق خطرات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ’الساھرہ‘ ک مطلب کھلی اور کشادہ جگہ ہے۔ عامی عربی میں اسے ’زاھرہ‘ بولا جاتا ہے۔ عبرانی میں اس نام کی مزید تحریف کرکے ’باب الزھور‘ قرار دیا گیا ہے۔ اس باب کے اندرونی اور بیرونی حصے میں اس کے نقش ونگارمیں کہیں بھی پھول بوٹے نہیں کہ اسے ’باب الزھور‘ یعنی پھولوں کا دروازہ کا نام دیا جاسکے۔
انہوں نے بتایا کہ باب الساھرہÂ کے متعدد تاریخی نام ہیں۔ جن میں اہل مغرب کے ہاں یہ ’ھروڈ انٹیباس‘Â ہے۔ صلیبی دور میں اسے ’باب میڈلین‘ کہا جاتا تھا۔ حجم کے اعتبار سے یہ ایک چھوٹا دروازہ ہے۔ اس کی نسبت باب العامود اور باب اسباط بڑے ہیں مگر اس کی تاریخی ترک خلیفہ سلطان سلیمان القانونی کےدور سے پہلے کی بتائی جاتی ہے۔
باب کی منصوبہ بندی
النتشہ نے کہا کہ باب الساھرہ مسجد کی جس سمت میں واقع ہے وہ بیسویں صدی کی یاد گار ہے۔ اس دروازے سے روز مرہ کی بنیاد پر فلسطینیوں کا گذر ہوتا ہے۔
باب الساھرہ کا دونوں پاٹ دیدہ زیب نقوش پر مشتمل ہیں۔ ان کے بیچ ایک تختی ہے جس پرکوئی نقش ونگار نہیں۔ دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی بائیں جانب مڑتے ہی پرانے شہر کا حصہ شروع ہوجاتا ہے۔
طلسماتی طرز تعمیر
قبلہ اوّل کے تاریخی و سیاحتی امور کے انچارجÂ یوسف النتشتہ کا کہنا ہے کہ باب الساھرہ کے اندر سنگ مرمر کے تین دائرہ نما نقوش ہیں۔۔ انہیں دو مساوی الساقین ایک مثلث نے ایک دوسرے سے جدا کر رکھا ہے۔ اسے خاتم سلیمان یا نجمہ داؤد کا نام دیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ باب الساھرہ کا پورا اندرونی اور بیرونی حصہ اسلامی فن تعمیر کا ایک شاہکار ہے۔ اس کا اسرائیل کے ’سلوگن‘ نجمہ داؤد یا ڈیوڈ کریسنٹ سے کوئی دور یا نزدیک کا تعلق نہیں اور نہ ہی یہ باب کسی جادو کی علامت یا سلیمان القانونی کی یاد گار ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ باب العامود پرہوتا یا کسی دوسرے باب اقصیٰ پرہوتا۔ یہ محض اسلامی فن تعمیرکا شاہکار ہے۔
ایک سوال کے جواب میں یوسف النتشہ نے کہا کہ صیہونی ریاست ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت القدسÂ کو یہودیانے کے ساتھ ساتھ مسجد اقصیٰ کے باب الساھرہ کو بھی یہودی ملمع کاری کے ذریعے اپنی اجارہ دارہ کے لیے کوشاں ہے۔