اگرچہ قبلہ اول کے محافظوں کے خلاف صہیونی ریاست کی انتقامی کارروائیاں برسوں سے جاری ہیں مگر حالیہ کچھ عرصے کے دوران مسجد کے پہرے داروں کی گرفتاریوں، ان کی گھروں پر جبری نظر بندیوں، بھاری جرمانوں اور دیگر انتقامی ہتھکنڈوں میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
عبادت اور ایمان وعقیدہ
مسجد اقصیٰ کے 62 سالہ محافظ مراد الدجانی کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ محض عبادت ہی کی جگہ نہیں بلکہ ہمارے ایمان و عقیدے کا مقام ہے۔ ایک پیشہ ور محافظ اور سیکیورٹی گارڈ سے قبل ہم قبلہ اول کے مقدس مقامت اور اس کے دفاع کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو دیکھتے ہیں۔ میں مسجد اقصیٰ کا بیٹا ہوں۔ میں مسجد سے متصل القطانین بازار کی کالونی میں رہتا ہوں۔ قبلہ اول کے قریب ترین ہونے کے ناتے یہ میری پہلی ذمہ داری ہےکہ میں قبلہ اول کےدفاع کے لیے اپنا سب کچھ وقف کردوں۔
مراد الدجانی نے کہا کہ میں نے قبلہ اول کے دفاع کے لیے خدمات کا آغاز1996ء میں کیا۔ اس سے قبل میں بیرون ملک ایک سیکیورٹی ایجنسی میں ملازم تھا۔ واپسی پرصہیونی انتظامیہ کی طرف سے یہودی کالونیوں میں سیکیورٹی اہلکار کی ملازمت کی پیشکش کی گئی تھی مگر میں نے اسے ٹھکرا دیا تھا۔
الدجانی نے کہا کہ اگرچہ قبلہ اول میں سیکیورٹی اور حفاظت کی ذمہ داری کا اسے دنیاوی اعتبار سے کوئی خاص فایدہ نہیں ہوا۔ اس کے مقابلے میں اسے صہیونی کالونیوں میں ایک سیکیورٹی اہلکار کی ملازمت کا خاطرخواہ معاوضہ فراہم کیا جاتا ہے تاہم اس کے لیے قبلہ اول کی رضاکا رانہ پہرے داری سے بڑھ کو کوئی چیز قیمتی نہیں۔
ایک سوال کے جواب میں مراد الدجانی نے کہا کہ مسجد اقصیٰ میں اس کی پہرے داری کی تاریخ زخموں سے بھری پڑی ہے۔ سنہ 2000ء سے قبل وہ مسجد اقصیٰ کے دروازوں پرباضابطہ ایک محافظ کے طور پرتعینات رہے مگر سنہ 2000ء کے بعد صہیونی انتظامیہ نے ان سے اختیارات چھین لیے۔ اس کے بعد اب وہ ایک نگران کے پہرے دار ہی کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ صہیونی انتظامیہ کی طرف سے انہیں حراساں کرنے کے لیے طرح طرح کےحربے استعمال کررہے ہیں۔ الدجانی کو قبلہ اول کے دفاع کے جرم میں پانچ بار حراست میں لیا گیا۔ دوران کئی بار تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔
ناقابل فراموش واقعات
مراد الدجانی کا کہنا ہے کہ جب سے اس نے قبلہ اول کے دفاع اور پہرے داری کی خدمت شروع کی تو کئی ایک ایسے واقعات رونما ہوئے جنہیں وہ کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔ ان ناقابل فراموش واقعات میں سنہ 2000ء میں سابق اسرائیلی وزیراعظم ارئیل شیرون کا مسجد اقصیٰ پر دھاوا بھی شامل ہے۔
الدجانی کا کہنا ہے کہ وہ ایرئیل شیرون کو قبلہ اول میں داخل ہونے سے روکنے والوں میں شامل تھے۔ انہوں نے ایئریل شیرون کو یہ کہتے سنا کہ وہ ایک سیاح کی حیثیت سے مسجد اقصیٰ میں داخل ہو رہے ہیں مگر وہ اپنے ساتھ 500 صہیونی پولیس اہلکاروں کے ہمراہ قبلہ اول میں داخل ہوئے۔ اگلے دن جمعہ کا دن تھا۔ قبلہ اول میں ایرئیل شیرون کے دھاوے کو اپنی زندگی کا انتہائی خوف ناک واقعہ قرار دے رہے ہیں۔
الدجانی نے بتایا کہ دیگر ناقابل فراموش واقعات میں تین سال قبل یہودی انتہا پسند رکن کنیسٹ فیگلن کا باب السلسلہ سے قبلہ اول میں داخل ہونا تھا۔ یہ ایک اشتعال انگیز حرکت تھی۔ فیلگن باب السلسلہ ہی سے وہ باہر نکلا۔ اس کے ہمراہ بھی صہیونی پولیس کی بڑی تعداد موجود تھی۔
مراد الدجانی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت منظم حکمت عملی کے ذریعے مسجد اقصیٰ کے فلسطینی محافظوں کے گرد گھیرا تنگ کرکے مسجد اقصیٰ کے محافظین کی جگہ یہودیوں کو تعینات کرنا چاہتی ہے۔ قبلہ اول کے یہ محافظین بلا شبہ مسجد اقصیٰ کے لیے زندہ و بیدار آنکھوں کا درجہ رکھتے ہیں جو ہمہ وقت قبلہ اول کے دفاع اور اس کی حفاظت میں سرگرم عمل ہیں۔