امریکہ کے صدر منتخب ہونے سے صرف آٹھ ماہ قبل ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ میں اسرائیلی لابی کے سب سے طاقتور گروپ سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری توانائی کے معاہدے کو ختم کردیں گے اور امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کر دیں گے۔۔۔ وہی ‘یروشلم جو یہودیوں کا ابدی دارالحکومت ہے۔
‘مارچ سنہ 2016 میں اپنی ایک تقریر میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا: ‘جب میں صدر بن جاؤں گا تو اسرائیل کا دوسرے درجے کا شہری سمجھا جانا خود بخود بند ہو جائے گا۔
‘
اس تقریر کے ختم ہوتے ہی امریکہ اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی (اے آئی پی اے سی) کی کانفرنس میں لوگوں نے کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں اور ڈونلڈ ٹرمپ کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔ اس کانفرنس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک تھے اور یہ کانفرنس ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران منعقد ہوئی تھی۔
اب ڈونلڈ ٹرمپ حکومت میں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ دکھا اور بتا دیں کہ انھوں نے اپنا وعدہ پورا کیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے اکتوبر میں کہا تھا کہ وہ ایران کے ساتھ معاہدے کی توثیق سے گریز کریں گے۔ یہ معاہدہ ان کے پیشرو صدر براک اوباما نے کیا تھا جس میں پانچ دیگر اہم ممالک بھی شریک تھے۔
اور اس ہفتے ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ اعلان بھی کر دیا کہ امریکہ سرکاری طور پر یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت سمجھتا ہے اور تل ابیب سے اپنا سفارت خانہ وہاں منتقل کر دے گا۔ اس اعلان سے دنیا حیران رہ گئی ہے اور اس کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ میں بھی کشدیدگی بڑھ گئی ہے۔
یہ فیصلہ دراصل امریکی خارجہ پالیسی سے ایک انحراف ہے۔ ایک ایسی پالیسی سے انحراف جس پر گذشتہ 50 برسوں تک امریکہ نے عمل کیا ہے۔ اس سے کچھ لوگوں کے اس خیال کو اور بھی تقویت ملتی ہے کہ اسرائیلی کے حمایتی (اے آئی پی اے سی) جیسے گروپ دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ پر کتنا گہرا اثر رکھتے ہیں۔
سٹیفن والٹ ہارورڈ یونیورسٹی میں عالمی امور کے پرفیسر ہیں اور’اسرائیلی لابی اور سیاست’ جیسی متنازع کتاب کے شریک مصنف ہیں۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ‘یہ اس بات کی علامت ہے کہ نہ صرف امریکہ بلکہ امریکہ سے باہر بھی اس طرح کے گروپوں کا مشرقِ وسطیٰ کے لیے امریکی پالیسیوں پر ایک نہ ختم ہونے والا اثر ہے۔
‘
تو واشنگٹن میں اس لابی کا اختیار اور اثر کس حد تک ہے؟
جو گروپ امریکہ میں یہودی یا صیہونی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں وہ نئے نہیں ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ان کا وجود 19 وں صدی سے ہے۔
لیکن امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات اس وقت قائم کیے جب اسرائیلی ریاست وجود میں آئی۔ امریکہ تب سے آج تک اسرائیل کا اہم حمایتی ہے۔
گذشتہ سال اوباما انتظامیہ نے دس سال کے لیے اسرائیل کے ساتھ 38 بلین امریکی ڈالر کی فوجی امداد کا معاہدہ کیا۔ یہ معاہدہ امریکی تاریخ میں اپنی نوعیت کا واحد معاہدہ ہے۔
سابق صدر براک اوباما اور اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتین یاہو کے مابین اگرچہ کافی معاملات پر اختلافِ رائے تھا خاص طور پر ایران کے ساتھ معاہدے کے معاملے پر۔ تاہم اسرائیل کے ساتھ ہونے والا معاہدہ اسرائیل اور امریکہ کے درمیان دو طرفہ اتحاد کی ایک علامت بھی تھا قطعِ نظر اس سے کے کہ حکومت کا سربراہ کون ہے۔؟
اور ایسے دو طرفہ تعلق کے پیچھے درجنوں نجی تنظیمیں کام کر رہی ہوتی ہیں جن میں سے اکثر یہ کام خاموشی سے کرتی ہیں۔
بی بی سی نے جب اے آئی پی اے سی سے یہ جاننے کے لیے انٹرویو کی درخواست کی کہ ٹرمپ کے یروشلم سے متعلق حالیہ اعلان پر اسرائیل نواز لابی کا کتنا اثر تھا، تو کمیٹی نے انٹرویو دینے سے انکار کر دیا۔
امریکہ میں اسرائیل نواز لابی کا ایک اہم ستون ‘کرسچیئنز یونائیٹڈ فار اسرائیل’ ہے جو خود کو سب سے بڑا ایسا گروپ قرار دیتا ہے اورکہتا ہے کہ اس کے اراکین کی تعداد تین 3.8 آٹھ بلین ہے۔
اس گروپ کے بانی پادری جان ہگی ہیں جنھوں نے انکشاف کیا ہے کہ انھوں نےصدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نائب صدر مائیک پینس کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ملاقاتیں کیں اور دونوں پر زور دیا کہ امریکہ اپنا سفارت خانہ یروشلم منتقل کر دے۔
اس گروپ کے لوگ جو مسحیی انجیلی فرقے سےتعلق رکھتے ہیں اور اسرائیل کے حمایتی ہیں، یہ مذہبی عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ کے دوسری بار زمین پر نزول کے لیے یہودیوں کی واپسی انتہائی اہم ہے۔
اس کے علاوہ کئی قدامت پرست رہنماؤں نے ٹرمپ کے انتخاب میں ان کی زبردست حمایت کی اور ان کے صدر بننے کے بعد اسرائیل نواز ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جو اے آئی پی اے سی کی کوششوں سے بھی زیادہ بڑی کوشش تھی۔
تاہم ایسے بھی لوگ ہیں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے یروشلم سے متعلق اعلان کے حوالے سے اسرائیل نواز گروپوں کے امریکہ پر اثر و رسوخ کی باتیں محض مبالغہ آرائی ہیں۔
ایلن ڈرشوٹز ہارورڈ یونیورسٹی میں پروفیسر امریطس ہیں اور قانون کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ وہ اسرائیل کا دفاع کرنے میں سرگرداں رہتے ہیں۔
پروفیسر ایلن سوال کرتے ہیں ‘اگر اسرائیل نواز لابی اتنی ہی مضبوط ہے تو اس نے سابق صدر براک اوباما کی حکومت کی اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی جانے والی اس قرارداد کو کیوں نہ روکا جس کے تحت یروشلم کے مقاماتِ مقدسہ کو غیر قانونی طور پر مقبوضہ قرار دیا گیا تھا۔
‘
بی بی سی ورلڈ سے بات کرتے ہوئے ایلن ڈرشووٹز نے کہا ‘امریکہ میں اسرائیل نواز لابی کسی بھی اور لابی کی طرح جمہوریت کا ایک حصہ ہے جس کی بات کبھی قابِل یقین لگتی ہے اور کبھی نہیں۔ صدور پر اس طرح کی لابیاں بہت ہی کم اثر انداز ہو تی ہیں لیکن اس کے برعکس امریکی کانگریس کے اراکین پر بحر حال ان کا بہت اثر رسوخ ہوتا ہے۔’
پرفیسر ایلن کی رائے میں امریکہ میں بہت سی دوسری بااثر لابیاں بھی ہیں۔
تاہم کچھ دیگر ماہرین اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ جب واشنگٹن میں پالیسیاں مرتب کرنے کی بات آتی ہے تو انتخابات سے قبل اسرائیل نواز گروپوں اور منتظموں کی بات خاص طور پر وزنی ہو جاتی ہے۔
مثلاً ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے لیے شیلڈین ایڈلسن کی مالی سپورٹ حاصل کرنے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب بھی رہے۔
امریکی اخبار ‘نیویارک ٹائمز’ کے مطابق یہ کھرب پتی جؤا خانہ ہے جو اسرائیل نواز گروپوں کا ایک بڑا عطیہ دہندہ یا ڈونر ہے اور اس کا اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتین یاہو سے انتہائی قریبی تعلق ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ صدر بن گئے تو اسی جوئے خانے نے ان کا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے یہ یقینی بنایا کہ امریکی صدر اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے امریکی سفارت خانے کو یروشلم منتقل کریں۔
میٹ گروسمین مشیگن سٹیٹ یونیورسٹی میں پبلک پالیسی کے انسٹیٹیوٹ میں ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘اسرائیل نواز گروپ اثر انگیزی میں بلند پایہ شہرت کے حامل ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ انھیں اِن گروپوں کی مخالفت مول نہیں لینی چاہیے۔’