لندن (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) برطانیہ کے شہرہ آفاق طبیعات دان آن جہانی اسٹیفن ہاکنگ حال ہی میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔ موصوف جہاں اپنے سائنسی نظریات کے حوالے سے متنازع رہے وہیں انسانی حقوق کے باب میں ان کا موقف نپا تلا اور حقیقت پرمبنی تھا۔ غیرمسلمÂÂ بلکہ ملحد ہونے کے باوجود قضیہ فلسطین کے پُرزور حامی اور اسرائیلی ریاست کے بائیکاٹ کے لیے چلنے والی
عالمی تحریکوں کے بھی حامی تھے۔
’مڈل ایسٹ آئی‘ ویب سائیٹ کے مطابق اسٹیفن ہاکنگ کو صیہونیوں کی جانب سے ہمیشہ نفرت کا نشانہ بنایا گیا۔ صیہونی اور اسرائیلی لیڈر شپ انہیں تختہ مشق بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ اپنے سائنسی نظریات سے ہٹ کرانہوں نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی مظالم کی شدید مذمت کی۔ فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کی۔ شام میں جنگ بندی پر زور دیا اور عراق پر امریکا کی قیادت میں مسلط کی گئی جنگ کے اسباب کو گمراہ کن قرار دے کر اس جنگ کو ظالمانہ کارروائی قرار دیا تھا۔
اسرائیل کا بائیکاٹ
زندگی کا ایک بڑا حصہ معذوری کے عالم میں گذارنے والے اس شہرہ آفاق سائنسدان نے 76 سال کی عمر پائی۔ انہیں سائنس کے میدان میں گراں قیمت خدمات انجام دینے پر نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔ ان کے کئی سائنسی افکار ونظریات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگران کی انسانیت نوازی، انسان دوستی اور انسانی حقوق کے باب میں خدمات سے انکارممکن نہیں۔ ان کے لیےاتنا ہی کافی ہے کہ انہوں نے دنیا کی مظلوم اقوام کی حمایت کی۔
اخبارات میں سنہ 2013ء کے دوران اسٹیفن ہوکنگ کا ایک خطاب ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔’القدس میں اسرائیل کا مستقبل‘ کے عنوان سے خطاب میں انہوں نے اسرائیلی ریاست کا بائیکاٹ کرنے والے اداروں، ملکوں اور تنظیموں کا احترام کرنے کی بات کی۔ فلسطینیوں کی حمایت میں انہوں نے کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
فلسطینی تجزیہ نگاروں، سیاسی قیادت اور فلسطینی عوامی حلقوں نے اسٹیفن ہوکنگ کے موقف کو سراہا اور کہا کہ مغربی دنیا کے سائنسیÂÂ اور علمی حلقوں میں ہوکنگ کا شمار فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والوں اور صیہونی ریاست کے مظالم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنے والوں میں ہوگا۔ اُنہوں نےاسرائیل پراقتصادی پابندیاں لگانے کی حمایت کی اور کہا کہ صیہونی ریاست کا عالمی سطح پر جاری اقتصادی، تجارتی،ثقافتی، تعلیمی اور سائنسی بائیکاٹ کیا جائے تاکہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے صیہونی ریاست کا غاصبانہ قبضہ ختم کرنے میں مدد مل سکے۔
دوسری جانب اسرائیل کے حامیوں نے ہوکنگ کو مسلسل تنقید اور مذمت کا نشانہ بنایا گیا۔ ہوکنگ کی وفات کے بعد اسرائیلی وزارت خارجہ ایک بیان میں کہا کہ ہوکنگ جیسا کوئی سائنسدان ایسا نہیں جس نے صیہونی ریاست کے بائیکاٹ کی کھل کرحمایت کی ہو۔
مزاحمت کی حمایت
جنوری 2009ء میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی پرننگی جارحیت کرکے 1000 سے زائد فلسطینی شہید کردیے۔ الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ہوکنگ نے کہا کہ اسرائیل امن نہیں چاہتا۔ فلسطینیوں سمیت غاصب ریاست کے قبضے کے خلاف جدو جہد مزاحمت کا حق حاصل ہے۔ فلسطینی قوم اور اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے وہی کچھ کیا جو آئرلینڈ کے عوام نے برطانوی فوج کے خلاف کیا۔ غزہ کی پٹی میں حماس کی منتخب قیادت کی حکومت قائم ہے۔ حماس کو فلسطینی عوام نے جمہوری انداز میں منتخب کیا ہے اور حماس کو فلسطین میں حکومت کرنے کا حق حاصل ہے۔
سنہ 2006ء میں ہوکنگ نے اسرائیل اور مقبوضہ فلسطین کا آٹھ روزہ دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران انہوں نے اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم ایہود باراک سے بھی ملاقات کی تھی۔
انہوں نے بیت المقدس میں اسرائیل کی عبرانی یونیورسٹی اورغرب اردن میں بیرزیت یونیورسٹی میں طلبا اور دانشوروں سے خطاب کیا۔
ہوکنگ نے فیس بک پر فلسطینی سائنسدانوں کی مکمل حمایت اور تائید کا اعلان کیا اور عالمی برادری سے فلسطین میں طبیعات کا جدید مرکز قائم کرنے کے لیےمالی مددکی معاونت کی۔
عراق جنگ
اسٹیفن ہوکنگ نے شام اور عراق میں جاری جنگ ختم کرنے پر زور دیتے ہوئےÂÂ کہا کہ عراق، شام اور فلسطین میں جاری جنگوں میں بچوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ شام میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی بھی طور قابل قبول نہیں۔ پوری دنیا تماشہ دیکھ رہی ہے۔ جنگ کاخاتمہ اور بچوں کےدفاع کے لیے اقدامات کرنا چاہئیں۔
سنہ 2003ء میں جب امریکا نے عراق پر حملہ کیا تو اسٹیفنÂÂ ہوکنگ نے اس جنگ کی بھی ڈٹ کر مخالفت کی۔
سنہ 2004ء میں عراق جنگ روکنے کے حوالے سے نکالی گئی ایک ریلی سے خطاب میں اسٹیفن ہوکنگ نے کہا کہ عراق پر جھوٹ کی بنیاد پر جنگ مسلط کی گئی ہے۔ عراق کے پاس وسیع پیمانےÂÂ پرتباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا کوئی وجود نہیں۔ صدام حسین کے خلاف بلا جاز جنگ چھیڑی گئی اور نائن الیون کے حملوں میں کوئی صداقت نہیں۔