غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) بالآخر امریکی حکومت نے اسرائیل کی خوش نودی کے لیے ایک اور قدم اٹھاتے اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے سیاسی شعبے کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کو دہشت گردی کی فہرست میں شامل کردیا۔
آج سے 21 برس قبل امریکی حکومت نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ جس کے بعد 31 جنوری 2018ء میں حماس کے موجودہ سیاسی شعبے کے سربراہ اور سابق وزیراعظم اسماعیل ھنیہ کو دہشت گردی کی فہرست میں شامل کردیا۔ویسے تو امریکی حکومت کی طرف سے فلسطینی قیادت کو 1978ء سے دہشت گردی کی بلیک لسٹوں میں شامل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
اسرائیلی وزارت خزانہ اور وزارت خارجہ نے اپنے الگ الگ فیصلوں نے حماس رہنما اسماعیل ھنیہ کو بلیک لسٹ کردیا۔ حماس کی طرف سے امریکی حکومت کے اس جانبدارانہ فیصلے کو مزاحمت پر دباؤ ڈالنے کی ناکام کوشش سے تعبیر کیا ہے۔
خیال رہے کہ امریکی حکومت نے سنہ 1997ء میں حماس کو دہشت گردی کی فہرست میں شامل کیا۔ درمیان میں کچھ عرصے کے لیے حماس کے بارے میں امریکی حکومت نے فیصلہ معطل کیا تھا مگر سنہ 2001ء میں حماس کو دوبارہ دہشت گرد تنظٰیموں کی فہرست میں شامل کردیا۔
امریکی حکومت نے حماس کے 8 رہنماؤں کو اب تک دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔ ان میں یحییٰ السنوار، روحی مشتہی، محمد الضیف، فتحی حماد، احمد الغندور، اسلامی جہاد کے رہنما رمضان الشلح اور ان کے نائب زیاد النخالہ کو شامل ہیں۔
امریکی حکومت کا تازہ فیصلہ صیہونی ریاست کی طرف داری کے امریکی حجم ، فلسطینیوں کے حقوق کے انکار میں شمولیت اور صیہونی ریاست جرائم کو جواز دینے بھونڈی کوشش ہے۔
حماس رہنما کو ایک ایسے وقت مںÂ دہشت گرد قرار دیا گیا ہے جب حال ہی میں امریکا حال ہی میں بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے بعد تل ابیب سے اپنا سفارتÂ خانہ القدس منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔
اسماعیل ھنیہ حماس کے حماس کے سیاسی شعبے کے تیسرے سربراہ ہیں جنہیں دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔ اس سے قبل سنہ 1992ء میں موسیٰ ابو مرزوق کو جو اس وقت جماعت کے سیاسی شعبے کے سربراہ تھے کو دہشت گرد قرار دیا گیا جب کہ سنہ 1995ء میں خالد مشعل کو جو 1996ء سے2017ء تک حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ رہے کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔
اسماعیل ھنیہ سنہ 1963ء کو غزہ کی پٹی میں ایک پناہ گزین خاندان کے ہاں پیدا ہوئے۔
انہوں نے غزہ کی اسلامی یونیورسٹی سے عربی زبان وادب میں گریجوایشن کی جس کے بعد حماس کے طلبہ ونگ اسلامک بلاک کی سرگرمیوں میں حصہ لینا شروع کردیا۔
سنہ 1989ء میں اسرائیلی فوج نے انہیں گرفتار کیا اور تین سال تک پابند سلاسل رکھا۔
17 دسمبر 1992ء کوانہیں اسرائیل نے 416 فلسطینی رہنماؤں کے ہمراہ لبنان جلا وطن کردیا گیا۔
پہلی تحریک انتفاضہ کے دوران سے ہی اسماعیل ھنیہ غزہ کے نوجوانوں میں شعلہ بیاں خطیب کے طور پر مشہور ہوگئے تھے۔
جیل سے رہائی کے بعد سنہ 1997ء میں حماس کے بانی الشیخ احمد یاسین شہید نے اپنے دفتر کا انچارج مقرر کیا۔
چھ ستمبر 2003ء کو اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں ان کے گھر پر میزائل حملہ کیا مگر اس وقت ھنیہ اور الشیخ احمد یاسین گھر پرنہیں تھے۔ اس لیے محفوظ رہے۔
سنہ 2006ء میں فلسطین میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں اسماعیل ھنیہ نے حماس کے پارلیمانی بلاک اصلاح وتبدیلی کی ٹکٹ پرÂ فلسطینی قانون ساز کونسل کے رکن منتخب ہوئے۔ بعد ازاں انہیں فلسطین میں تشکیل پانے والی حکومت کے سربراہ مقرر ہوئے۔
وہ سنہ 2014ء کے وسط تک غزہ کی پٹی کے عبوری وزیراعظم رہے جس کے بعد فلسطین میں قومی حکومت تشکیل دی گئی۔ اس دوران انہیں حماس کے سیاسی شعبے کا نائب صدر بھی مقرر کیا گیا۔
تحریک فتح کے ساتھ قومی مفاہمت کے لیے اسماعیل ھنیہ نے کلیدی کردار ادا کیا۔ انہوں نے غزہ کی پٹی میں وزارت عظمیٰ کے عہدے سے دست بردار ہونے کے ساتھÂ کئی غیرمعمولی لچک دکھائی۔ گذشتہ برس انہیں حماس کی نئی قیادت کے انتخاب کے دوران جماعت کے سیاسی شعبے کا سربراہ مقرر کیا گیا۔