غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسرائیلی ریاست باقاعدہ منصوبے اور طے شدہ حکمت عملی کے تحت غزہ کو ایک بار پھر میدان جنگ میں تبدیل کرنے کے لیے کوشاں ہے مگر قابض صیہونی ریاست اب تک اپنی اس حکمت عملی میں بری طرح ناکام رہا ہے۔
تیس مارچ کو غزہ کی مشرقی سرحد پر لاکھوں فلسطینیوں نے ’پرامن واپسی تحریک‘ کا آغاز کیا۔
اس تحریک کو دبانے کے لیے اسرائیلی ریاست نے فوجی طاقت کا اندھا دھند استعمال کیا۔ اسرائیلیÂ ذرائع ابلاغ نے بھی اسرائیلی فوج کی جارحیت کا بھرپور ساتھ دیا اور جان بوجھ کر غزہ کی مشرقی سرحد پر مظاہروں کی آڑ میں جنگ کا ماحول پیدا کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔شاید اسرائیل کا خیال تھا کہ غزہ کی مشرقی سرحد پر فلسطینی مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال مزاحمت کاروں کو مشتعل کرے گا اور وہ جوابی حملے شروع کردیں گے۔ اس طرح پرامن احتجاجی مارچ ختم ہوجاتا اور غزہ کی پٹی اسرائیلی فوج اور فلسطینی مزاحمت کاروں کے درمیان جنگ کا میدان بن جاتا۔
فلسطینی مجاھدین اور مظاہرین دونوں نے قابض اسرائیل کی تمام تر رعونت اور بربریت کے علی الرغم تحمل کا مظاہرہ کیا۔ 30 مارچ کے بعد اسرائیلی فوج نے فلسطینی مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال کے دوران 122 فلسطینیوں کو شہید اور تیرہ ہزار کو زخمی کردیا مگر اس کے باوجودÂ فلسطینی قوم نے غزہ کو میدان جنگ سے بچانے کے لیے تحمل کا مظاہرہ کیا۔
غزہ کے اندر بمباری کی دھمکیاں
غزہ کی مشرقی سرحد پر 30 کو فلسطینی مظاہرین کے جمع ہونے سے قبل اسرائیلی ریاست نے دھمکی دی کہ اگر فلسطینیوں نے احتجاج شروع کیا تو اسے کچلنے کے ساتھ ساتھ غزہ کے اندر فلسطینی مزاحمتی مراکز پر بمباری کی جائے گی۔ اسرائیلی فوج نے نہ صرف اس دھمکی کو زبانی حد تک رکھا بلکہ وہ عملا غزہ کےاندر وقفے وقفے سے فلسطینی مزاحمت کاروں کےٹھکانوں پر مسلسل بمباری کررہی ہے۔ تاہم اس کے باوجود فلسطینی مجاھدین اور حق واپسی کے مظاہرین نے خود کو پرامن رکھا اور ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جس کے نتیجے میں غزہ کو میدان جنگ میں تبدیل کیا جاسکے۔ اسرائیلی فوج نے دو روز قبل مغربی غزہ میں ساحل سمندر پرکھڑی فلسطینی ماہی گیروں کی کشتیوں پر بمباری کی جس کے نتیجے میں دو کشتیاں تباہ ہوگئیں۔
اسرائیلی فوج نے ’ایف 16‘ جنگی طیاروں سے بمباری فلسطینی ماہی گیروں کی کشتیوں پر کی اور دعویٰ یہ کیا کہ اس نے غزہ میں حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے مراکز کو نشانہ بنایا ہے۔ حماس کے ترجمان عبدالطیف القانوع نے اس پر اپنے ردعمل میں کہا کہ اسرائیلی فوج غزہ کی مشرقی سرحد پر پرامن تحریک واپسی کو دبانے میں ناکام رہی ہے۔ اب اس ناکامی کو چھپانے کے لیے غزہ کی پٹی میں کشتیوں پر بمباری اور مزاحمتی مراکز کو نشانہ بنانے کی ناکام کوشش کررہی ہے۔
جنگ کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش
اسرائیلی فوج کی طرف سے مشرقی سرحد پر فلسطینی مظاہرین کو کچلنے میں ناکامی کے بعد بمباری پر فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہناہے کہ اسرائیل جنگ کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ تجزیہ نگار ایدا القرا کا کہنا ہے کہ اسرائیل مظاہرین سے نمٹنے میں ناکامی کے بعد کھیل کے قواعد کو تبدیل کررہا ہے۔ اب اسرائیل کی کوشش ہے کہ وہ غزہ کو میدان جنگ میں تبدیل کرے تاکہ حق واپسی کی تحریک کو ناکام بنایا جاسکے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل غزہ کی مشرقی سرحد پر جاری عوامی احتجاجی تحریک کو بھی فلسطینی مزاحمت کاروں کی منصوبہ بندی سے جوڑ رہا ہے۔
تجزیہ نگار ابراہیم حبیب نے ایاد القرا کے موقف سے اتفاق کیا اور کہا کہ اسرائیل غزہ کو فلسطینی مزاحمت کاروں کے ساتھ کھلی جنگ میں تبدیل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس طرح اسرائیل کو فلسطینی مظاہرین کے خلاف طاقت کے مزید استعمال کا جواز مل جائے گا تاہم اب تک اسرائیل کو اس میں کامیابی نہیں ملی کیونکہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی طرف سے مسلسل تحمل کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیموں کی پالیسی جنگ کو ٹالنے کی ہے۔ اسرائیل کو بھی اندازہ ہے کہ وہ فلسطینی مزاحمت کاروں کے مراکز پر بمباری کے بعد محفوظ نہیں رہے گا مگر فلسطینی مجاھدین نے جوابی کارروائی سے اس لیے گریز کی پالیسی اپنائی ہے تاکہ غزہ کی مشرقی سرحد پر جاری حق واپسی کی تحریک کو مزید آگے بڑھانے میں مدد ملے۔
ابراہیم الحبیب کا کہنا ہے کہ فلسطینی مجاھدین غزہ کو جنگ کا میدان بننے سے بچانے کی دانش مندانہ حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔