گذشتہ روزامریکی عہدیداروں نے تصدیق کی کہ ٹرمپ انتظامیہ نے فلسطینی پناہ گزینوں کی 125 ملین ڈالر کی امداد بند کردی ہے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد کی بندش امریکا کا قضیہ فلسطین پر القدس کے بعد دوسرا بڑا حملہ ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ’صدی کی ڈیل‘ کے اعلان کے بعد تواتر کے ساتھ فلسطینیوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ اب یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اور فلسطینیوں کی مالی امداد روکنا جیسے تمام حربے ٹرمپ کے’صدی کے تاریخ ساز اقدام‘ کا حصہ ہیں۔ القدس کو اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے بعد امریکا نے امداد بند کرکے قضیہ فلسطین پر ایک اور حملہ کیا ہے۔
امریکی مبصرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ اسرائیل ۔ عرب کشمکش کی اس تاریخی گرہ کو کھولنے والے ہیں جو آج تک کسی امریکی صدر یا کسی دوسرے عالمی لیڈر کی جانب سے نہیں کی کھولی گئی۔ چھ دسمبر انیس سو سترہ کو القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنا اور امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی کا امریکی اعلان اسی مشکل گرہ کا حصہ ہیں۔
امداد کی بندش کا مسئلہ
گذشتہ منگل کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’ٹوئٹر‘ پر اپنی متعدد ٹویٹس میں فلسطینی اتھارٹی کی امداد بند کرکے اسے بلیک میل کرنے کی مجرمانہ کوشش کی۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں نے امداد کی قدر نہیں کی۔ اب فلسطینی اتھارٹی اسرائیل سے مذاکرات سے بھی انکاری ہے۔ اس لیے فلسطینیوں کو مزید امداد دینے کے لیے اسرائیل سے مذاکرات بنیادی شرط ہوگی۔
ٹرمپ نےلکھا کہ فلسطینیوں کو سالانہ کروڑوں ڈالر امداد دی جاتی ہے مگر ان (فلسطینیوں) کی طرف سے ہمیں آج تک کوئی احترام نہیں دیا گیا۔ وہ اسرائیل کے ساتھ مذاکراتÂ میں بھی مسلسل ٹال مٹول کررہے ہیں۔
ٹرمپ نے مزید کہا کہ امریکا نے اہم ترین حصے’القدس‘ کو مذاکرات کے ایجنڈے سے الگ کردیا۔ اب بھی فلسطینی مذاکرات پرآمادہ نہیں۔ اگر فلسطینی مذاکرات پرآمادہ نہیں تو ہم اتنی خطیر رقم انہیں کیوں دیں۔
امریکی صدر کی دھمکی کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ میں امریکی مندوبہ نیکی ہیلے نے دھمکی دی کہ اگر فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل سے مذاکرات کا عمل بحال نہ کیا تو فلسطینی پناہ گزینوں کی ریلیف ایجنسی’اونروا‘ کو امریکا کی طرف سے دی جانے والی امداد بند کردی جائے گی۔
’اونروا‘ کے ترجمان سامی مشعشع نے بتایا کہ امریکا ’ایجنسی‘ کوسب سے زیادہ امداد دینے والے 10 ممالک میں شامل ہے۔
امریکا کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کو36 کروڑ 42 لاکھ، 65 ہزار 585 ڈالر سالانہ امداد دیتا ہے۔ یورپی یونین کی طرف سے 14 کروڑ 31 لاکھ 37 ہزار 340 ڈالر۔جرمنی کی طرف سے 7 کروڑ ،61 لاکھ 77 ہزار 343Â ڈالر، برطانیہ کی طرف سے 6 کروڑ 18 لاکھ 27 ہزار964 ڈالر، سعودی عرب 5 کروڑ 12 لاکھ 75 ہزار جاپان 4 کروڑ 36 لاکھ 21Â ہزار 169 ڈالر، سوئٹرزلینڈ 2 کروڑ 69 لاکھ 38 ہزار 805 ڈالر، ناروے 2 کروڑ 63 لاکھ 13 ہزار 359 ڈالر، ہالینڈ 2 کروڑ 8 لاکھ 77 ہزار 507 ڈلر امداد فراہم کرتا ہے جو کہ کل سالانہ امداد 87 کروڑ 41 لاکھ 77Â ہزار 965 ڈالر بنتی ہے۔
اسرائیل کے عبرانی ٹی وی 10 نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہےکہ امریکا نے فلسطینی پناہ گزینوں کی 12 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی امداد منجمد کردی ہے۔ امریکا کی طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ اقدام فلسطینی صدر محمود عباس کے امریکا کی قیادت میں اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں شامل نہ ہونے کا نتیجہ ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد کی بحالی فلسطینی اتھارٹی کےاسرائیل سے مذاکرات کی بحالی پر منحصر ہے۔
جب تک فلسطینی اتھارٹی امریکا کی سرپرستی میں اسرائیل کے ساتھ امن بات چیت شروع نہیں کرتی اس وقت تک فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے امریکی امداد بند رہے گی۔
پناہ گزین قضیے کا تصفیہ
فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے خلاف یکے بعد دیگرے امریکا کے انتقامی اقدامات دراصل فلسطینی پناہ گزینوں کے قضیے کوختم کرنے کی کوشش ہے۔
ولید المدلل نے کہا کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے امداد دراصل مصیبت زدہ فلسطینیوں کے لیے امریکا کی امداد ہے۔
تجزیہ نگار عدنان ابو عامر بے ولید المدلل کی رائے سے اتفاق کیا اور کہا کہ امریکی انتظامیہ عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے فلسطینی پناہ گزینوں کے معاملے کے حل کے بجائے اسے ختم کرنا چاہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بیت المقدس کے بعد فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی قضیہ فلسطین کا دوسرا اہم ترین حل طلب مسئلہÂ ہے۔
فلسطینی وزارت خارجہ نے بھی امریکی حکومت کی طرف سے فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد بند کرنے کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔ وزارت داخلہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکا اور اسرائیل مل کر فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی، بیت المقدس، سرزمین اور سرحدوں کے معاملے کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔
فیصلے کے منفی اثرات
امریکی حکومت کے انتقامی اقدامات بالخصوص فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد بند کرنے سے واضح ہوگیا ہے کہ امریکا اپنے حالیہ منصوبوں کو تسلیم کرانے کے لیے فلسطینی اتھارٹی کی کمر پرانتہائی طاقت ور تازیانہ برسا رہی ہے۔ فلسطینی تجزیہ نگار ابو عامر کا کہنا ہے کہ اونروا کی امداد منجمد کرنا فلسطینی اتھارٹی کو بلیک میل کرنا اور دھونس اور دھمکی کے ذریعے اپنے ظالمانہ فیصلے قبول کرنے پرآمادہ کرنا ہے۔
ولید المدلل کا کہنا ہے کہ امریکا کی طرف سے امداد کی بندش کے فلسطینی پناہ گزینوں کے حالات پر گہرے اور منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی پناہ گزینوں کے قضیے کو ختم کرنے میں بعض عرب ممالک کی حمایت ہوسکتی ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت فلسطینی اتھارٹی کو گھٹیا سیاسی بلیک میلنگ کا نشانہ بنا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل سے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں۔ مذکرات فلسطینی قوم کے حقوق پر ایک اور ڈاکہ ڈالنےÂ کا موجب بن سکتے ہیں۔