مسجد الکبیر اپنی عظمت اور شان وشوکت کے اعتبار سے شہر کی ایک بے مثال مسجد شمار کی جاتی تھی۔ اس کی خوبصورت گیلریاں، سفید گنبد، اندلسی طرز کی کھڑکیاں، سنگ مرمر کے ستون اور مزین دروازے بہ زبان حال گئے زمانوں کی اپنی شان وشوکت کہ کہانی بیان کرتے ہیں۔ مگر اللہ کا یہ گھر آج اہل ایمان سے شکوہ کناں ہے۔
مسجد کے اطراف میں اگرچہ زیتون اور کھجور کے باغات اور دھان کی فصل سے سرسبزہ اور شادابی تو رہتی ہے مگر نمازیوں کے نہ ہونے کے باعث مسجد ویران ہے۔ سنہ 1948ء کے بعد صیہونی ریاست کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باعث یہ مسجد ویران ہے۔
تاریخی پس منظر
فلسطین کے شہر بئر سبع کی یہ جامع مسجد الکبیر سنہ 1906ء میں خلافت عثمانیہ کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ دور عثمانی کی یہ پہلی بڑی مسجد تھی۔ اس وقت اس شہر کو جنوبی فلسطین کا دارالحکومت سمجھاجاتا تھا۔ یہ مسجد الخلیل اور غزہ گورنریوں کے شہریوں کے لیے حلقہ وصل کی حیثیت رکھتی تھی۔ غزہ اور الخلیل سے لوگ جمعہ کی نمازیں ادا کرنے اس مسجد میں آتے۔ مشرق اردن، جزیرہ نما النقب اور صحرائے سیناء کے مسلمانوں کے لیے بھی ملاقات کا ایک سبب تھے۔ اس کی خوبصورت فن تعمیر کو دیکھنے مصر اور شام سے سیاح آتے۔ دوسرے ملکوں سے آنے والے مسلمانوں اور سیاحوں کے لیے مسجد الکبیر ایک رہائش گاہ کی حیثٰیت رکھتی تھی۔ قبائل اپنے تنازعات اس مسجد میں طے کرتے۔ فلسطینی مورخ عارف العارف نے اپنی کتاب ’تاریخ قبائل بئر سبع‘ میں بھی مسجد الکبیر کا تفصیلی تذکرہ کیا ہے۔
مسجد میں فلسطینیوں کا قتل عام
سنہ 1948ء میں صیہونی جلادوں اور غاصب دہشت گردوں نے بئر سبع پریلغار کی اور شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ یہ صیہونی برطانوی استبداد کی حمایتÂ اور مدد سے بئر سبع میں داخل ہوئے۔ شہر کے سیکڑوں بے گناہ بچے اور عورتیں اس مسجد میں پناہ گزین ہوئیں مگر صیہونی دہشت گردوں نے نہتے فلسطینیوں کو مسجد میں بھی معاف نہ کیا۔ کئی مسلمانوں کو مسجد میں تہہ تیغ کرنے کے بعد ایک دہشت گرد نے مسجد کے اندر گولہ پھینکا، جس کے پھٹنے سے نہ صرف مسجد کو غیرمعمولی نقصان پہنچا بلکہ وہاں پر موجود خواتین اور بچوں کے چھیتڑے اور ان کا خون مسجد کی دیوارپر بکھر گیا۔
اس کے بعد سے یہ مسجد آج تک نمازیوں کو ترستی ہے۔ صیہونی حکام کی طرف سے اس مسجد کو ویران رکھنے کی دانستہ سازش کی گئی اور طاقت کے ذریعے فلسطینیوں کو مسجد میں آنے اور نماز سے روکا جاتا ہے۔
سنہ 1952ء میں صیہونی حکومت نے اس مسجد کو ایک عجائب گھر میں تبدیل کردیا اور اسے ’النقب میوزیم‘ کا نام دیا گیا۔ یہ اقدام بئر سبع بلدیہ کے اس وقت کے صیہونی چیئرمین زیپی عوفر نے کیا۔ صیہونی مسجد میں گھس جاتے اور اس کے میناروں پر بھی چڑھ کر مسلمانوں کو اشتعال دلانے سے بھی باز نہیں آتے تھے۔
میوزیم میں تبدیل کرنے کے بعد اس میں باز نطینی دور کی اشیاء اور پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی کی اشیاء رکھی گئی ہیں، باز نطینی دور کے پتھروں سے بنے برن اور ان پر کشیدہ کاری کے ساتھ اس وقت کی زبان میں لکھی گئی عبارتیں بھی موجود ہیں۔ اگرچہ یہ مسجد نمازیوں سے تومحروم ہے مگر اسے مقامی مسلمانوں نے اسلامی اور مشرقی تہذیب کا میوزیم قرار دیا ہے۔
شراب میلے کی ناپاک جسارت ناکام
طویل عرصے تک مسجد الکبیر کو صیہونی ریاست نے میوزیم بنائے رکھا اور اس کی مسلسل بے حرمتی کی جاتی رہی۔ تاہم دوسری جانب فلسطین کے تمام شہروں بالخصوص بئرسبع اور بیت المقدس میں فلسطینیوں نے مسجد الکبیر کی بحالی اور اس میں نماز کی اجازت دینے کے مطالبے کے لیے تحریک چلائی۔ جگہ جگہ احتجاجی مظاہرے کیے جاتے رہے۔ مسجد الکبیر کے باہر بار بار احتجاجی نماز کی ادائیگی کا اہتمام کیا گیا۔ سنہ 2011ء میں اسرائیلی سپریم کورٹ نے فلسطینیوں کے احتجاج کو دیکھتے ہوئے مسجد کو مشرقی اقوام اور اسلامی ثقافت کا خصوصی میوزیم قرار دیا۔ اس اس مسجد میں ہفتہ وار ثقافتی اور فنی نوعیت کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔
اگست 2002ء کو صیہونیوں نے مسجد الکبیر میں شراب میلے کے انعقاد کا اعلان کیا تو پورے فلسطین میں اس اعلان کے خلاف غم وغصہ کی لہر دوڑ گئی۔ تاہم فلسطینیوں کے احتجاج کے بعد صیہونی اپنی اس ناپاک جسارت میں بری طرح ناکام رہے۔ صیہونیوں نے منصوبہ بنا رکھا تھا کہ وہ مسجد ابراہیمی میں شراب وکباب کی محافل منعقد کریں گے۔ شراب تیار کرنے والی 30 کمپنیوں نے مشترکہ طور پر یہ منصوبہ تیار کیا تھا۔
جیسے ہی مقامی مسلمانوں کو یہ پتا چلا کہ صیہونی مسجد الکبیر میں شراب میلے کے انعقاد کی ناپاک جسارت کی تیاری کررہے ہیں تو ہزاروں کی تعداد میں فلسطینیوں نے مسجد الکبیر کے باہر احتجاجی کیمپ لگا لیا۔ فلسطینی وہیں دن رات قیام کرتے، اذانیں دیتے اور نمازیں ادا کرتے رہے۔ صیہونی فوج اور پولیس نے مقامی فلسطینی آبادی کو طاقت سے روکنے کی کوشش کی مگر فلسطینیوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر اللہ کے گھر کی حرمت کو پامال ہونے سے بچایا۔