الخلیل – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسرائیلی زندانوں میں قید وبند کی صعوبتیں اٹھانے والے ہزاروں فلسطینیوں کی اپنی اپنی کرب ناک داستان ہے۔ انہی المناک اسیری کی داستانوں کی عملی مثال فلسطینی قانون ساز کونسل کے رکن اور اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے رہ نما ÂÂÂ محمد جمال النتشہ بھی ہیں جو اپنی زندگی کے 18 رمضان المبارک
اور 36عیدیں صہیونی دشمن کی جیل میں گذار چکے ہیں۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق اسیر رہنما جمال النتشہ کی ÂÂÂ 56 سالہ اہلیہ احلام فواد الشعراوی المعروف ’ابو ھمام‘ نے اپنے شوہر کی اسیری کے دوران ماہ صیام اور عیدیں گذارنے کے درد بھرے لمحات کی تفصیلات بتائیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر ابو ہمام کو صہیونی فوج نے پچھلے بیس سال سے پابندسلاسل رکھا ہواہے۔ اگرچہ اس عرصے میں وہ بسا اوقات رہا بھی کیے جاتے مگرہ ماہ صیام کے آنے سے قبل انہیں حراست میں لے لیا جاتا۔
دہری مصیبت
ام ھمام کی زندگی دکھوں اور المناک واقعات سےعبارت ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ دہری مصیبتوں کا شکار رہی ہیں۔ ان کے والد ÂÂÂ اور مربی فواد الشعراوی سنہ 1987ء کی تحریک انتفاضہ کے دوران اسرائیلی دہشت گردی کے نتیجے میں جام شہادت نوش کرگئے تھے جب کہ ان کی والدہ ثروت الشعراوی 2015ء میں قابض صہیونی فوج کی دہشت گردی میں جام ÂÂÂ شہادت نوش کرگئی۔ رہے شوہر تو وہ پچھلے بیس سال سےصہیونی زندانوں میں پابند سلاسل ہیں۔
ام ھمام نے کہا کہ ذرا تصور کریں کہ ایک شخص جو 18 رمضان المبارک اور 36 عیدیں اپنے اہل خانہ سے دور دشمن کی قید میں گذارے تو اس پر اور اس کے اہل خانہ پرکیا بیتتی ہوگی۔ ہم اس کربناک لمحات کو سالہا سال سے برادشت کررہے ہیں۔ ابو ھمام ہماری خوشی اور غم میں شریک نہیں ہوسکتے۔ اگر وہ چند روز کے لیے رہا بھی ہوجائیں تو ہمیں یہ کھڑکا لگا رہتا ہے کہ اسرائیلی فوج انہیں کسی بھی وقت دوبارہ گرفتار یا ملک سے بے دخل کرسکتی ہے۔ وہ فلسطین سے لبان میں مرج الزھور کی طرف بے دخل کیئے گئے چار سو فلسطینی اسیران میں شامل رہ چکے ہیں۔ دوران اسیری بھی ابو ھما کو آزادی کے لیے تڑپ آرام نہیں کرنے دیتی، کبھی بھوک ہڑتال کرتے ہیں اور کبھی کوئی اور احتجاجی قدم اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے اسرائیلی جیل میں بھوک ہڑتال کی تو اس کے نتیجے میں ان کے دماغ پراثر پڑے۔ ان کے دماغ کی اسپتال ہی میں سرجری کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ÂÂÂ جمال النتشہ کو اپنے اہل خانہ کی خوشی اور غم میں شرکت پر بہت دل گرفتہ ہیں۔ ان کی بیٹی ’ولاء‘ کی رخصتی میں شرکت ان کی خواہش تھی مگر صہیونی دشمن نے بیٹی کی رخصتی کے موقع پر کچھ دیر کے لیے بھی انہیں رہا نہیں کیا گیا۔ اسی طرح ان کے بیٹے سلام کی شادی ہوئی، دوسرے بیٹے محدم کو ملائیشیا کی یونیورسٹی میں داخلہ ملا۔ ہمارے پانچ پوتے اور پوتیاں پیدا ہوئیں مگرابو ھمام ان کی خوشی میں شریک نہیں ہوسکے۔
باعث فخر
ام ھمام نے کہا کہ اگرچہ ان کے شوہر کئی سال سے اپنے اہل خانہ سےدور صہیونی زندانوں کی سلاخوں کے پیچھے قید ہیں۔ مگر وہ فخر سے کہتی ہیں کہ وہ ایک ایسے فلسطینی لیڈر کی اہلیہ ہیں جس نے اپنی زندگی کے قیمتی برس قوم کے حقوق کے دفاع کے لیے جدو جہد میں دشمن کی اسیری میں گذارے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ابو ھمام آزادی فلسطین کے ایک پروانہ ہیں۔ وہ صرف سیاست دان ہی نہیں بلکہ ایک مفکر اور داعی ہیں۔ رہائی کےایام میں دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ مجھے یاد نہیں کہ رہائی کے ایام میں وہ ایک دن بھی دعوتی امور کی انجام دہی سے فارغ رہے ہوں۔
خیال رہے کہ جمال ابو النشتہ المعروف ابو ھمام کو اسرائیلی فوج نے آخری بار ستمبر2016ء کو حراست میں لیا گیا تھا۔ گرفتاری کے وقت اسرائیلی فوجی افسر نے انہیں کہا کہ ابو ھمام آپ کے لیے رہائی کے سات ماہ کافی ہیں۔ اس وقت ان کی رہائی کو محض سات ماہ ہی گذرپائے تھے۔ انہیں مسلسل تین سال تک انتظامی حراست کی پالیسی کے تحت قید کیا گیا تھا۔ اپنی انتظامی حراست منسوخ کرانے کے لیے مسلسل 64 دن تک بھوک ہڑتال کی تھی۔