غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی کے عوام گذشتہ چار ماہ سے حق واپسی کے لیے پُرامن تحریک چلا رہے ہیںÂ مگر اس تحریک کے دوران فلسطینیوں کے آتش گیر کاغذی جہاز اور گیسی غبارے ایک نئے مزاحمتی حربے کیÂ شکل میں سامنے آئے ہیں۔
صیہونی ریاست نے فلسطینیوں کے گیسی غبارے اور آتش گیر کاغذی جہازوں کے حملے روکنے کے لیے مختلف حربے اختیار کیے ہیں۔ اسرائیلی فوج، اس کے سیکیورٹی ادارے، سیاست دان اور ابلاغی ادارے بھی غیر مسبوق انداز میں گیسی غباروں کے معاملے پر سخت تناؤ کا شکار ہیں اور ان کے پاس فلسطینیوں کے اس مزاحمتی حربے کا کوئی ٹھوس اور مؤثر حل نہیں ہے۔صیہونی فوج اور انٹیلی جنس ادارے فلسطینیوں کے آتش گیر کاغذی جہازوں کے حملوں کی روک تھام میں ناکامی کے بعد اب فلسطینی مزاحمتی قیادت کو قاتلانہ حملوں میں شہید کرنے کی پالیسی کا اشارہ دے رہے ہیں۔
صیہونی نیشنل الائنس کے سیکرٹری اوفیر سوفیر نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ کی پٹی کی سرحد پر آتش گیر کاغذی جہازوں کے مزاحمتی عمل کو روکنے کے لیے فلسطینی مزاحمتی قیادت کو نشانہ بنا کر شہید کرنے کی پالیسی دوبارہ شروع کرے۔ اس طرح فلسطینی غزہ کی سرحد کی دوسری طرف گیسی غبارے پھینکنے سے باز آنے کے ساتھ ساتھ غزہ میں جنگی قیدی بنائے گئے فلسطینیوں کی رہائی پر بھی مجبور ہوجائیں گے۔
اسرائیلی وزیر تعلیم نفتالی بینٹ کا کہنا ہے کہ فوج اور حکومت کا غزہ کی پٹی کی اشتعال انگیزی پر تحمل کسی بڑی جنگ کی طرف لے جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی فوج اور خفیہ اداروں کو فلسطینی مزاحمتی قیادت کو قاتلانہ حملوں کا نشانہ نہ بنانا بہت بڑی غلطی ہے۔ وہ فلسطینی جو غزہ کی پٹی کی سرحد پر کاغذی آتش گیر جہاز پھینک رہے ہیں انہیں بمباری کے ذریعے شہید کیا جانا چاہیے۔
تزویراتی حکمت عملی کا فقدان
فلسطینی تجزیہ نگار اور اسرائیلی امور کے ماہر عماد ابو عواد نے کہا کہ موجودہ حالات میں اسرائیل فیصلہ سازی کے معاملے میں کافی الجھن کا شکار ہے۔ اسرائیل کے پاس فلسطینی مزاحمتی قیادت کے خلاف کارروائی کے لیے کوئی مؤثر اور دیر پا حکمت عملی نہیں اور وہ تزویراتی حکمت عملی کے فقدان کا شکار ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اسرائیل غزہ کے معاملے کو پرامن طریقے سے حل کرنے اور ڈیٹرنس برقرار رکھنے میں ناکام ہے۔ وہ توقع رکھتا ہے کہ آئندہ کسی بھی وقت کوئی بڑی جنگ ہوسکتی ہے اور یہ خوف اسرائیلی آبادی کو بھی لاحق ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں اگر جنگ ہوتی ہے تو صیہونی ریاست کو اس کی قیمت چکانا پڑ سکتی ہے اور اسرائیل کو اس کا بہت زیادہ نقصان ہوسکتا ہے۔
اسرائیلی اخبار ’معاریو‘ کے نامہ نگار تال لیو رام نے تل ابیب کے ایک ذمہ دار عسکری ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے کہ عوامی دباؤ کے باعث اسرائیل حماس کے خلاف فوجی کارروائی کی جانے سے گریز کی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔
صیہونی ریاست تنگ گلی میں
فلسطینی تجزیہ نگار صلاح الدین العوادہ نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں تیس مارچ سے جاری پرامن تحریک حق واپسی نے صیہونی ریاست کو تنگ گلی میں پہنچا دیا ہے۔ اسرائیل پُرامن اورÂ غیر پُرامن کی کیفیت میں ہے۔ فلسطینیوں کے کاغذی جہاز اور گیسی غبارے اسرائیلیوں کے لیے درد سر ہیں۔ وہ ان کامقابلہ راکٹوں کی طرح نہیں کرسکتے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں کے کاغذی جہازوں سے اسرائیل کو جانی نقصان تو نہیں ہو رہا ہے مگر یہ کاغذی جہاز اور گیسی غبارے صیہونی ریاست کو پریشانی کیے ہوئے ہیں۔ البتہ ان گیسی غباروں نے صیہونی ریاست کو معیشت کے شعبے میں بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔ غزہ کی پٹی کی سرحد کی دوسری طرف فصلیں نذرآتش ہو رہی ہیں اور اسرائیل کو درپیش زرعی خسارے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
کیا ٹارگٹ کلنگ پھر شروع ہوگی؟
اسرائیلی اخبار ’معاریو‘ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی کنیسٹ کی خارجہ وسیکیورٹی کمیٹی کے چیئرمین آوی دیختر کا کہنا ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی سے پھینکے جانے والے گیسی غباروں اور کاغذی جہازوں کو روکے گا چاہے اس کے لیے اسے جنگ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
آوی دیختر نے کہا کہ مستقبل قریب میں فلسطینیوں کی مزاحمتی قیادت کو ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے نشانہ بنانے کی پالیسی دوبارہ شروع کی جاسکتی ہے۔ اگر اسرائیل دوبارہ اس پالیسی پر عمل درآمد کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں حماس کی قیادت کو کہیں بھی جائے پناہ نہیں ملے گی۔
اسرائیلی سلامتی کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ اسرائیل کا جنگ میں کودنا اسے ٹارگٹ کلنگ کی پالیسی سے منع نہیں کرے گا۔