رام اللہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطین میں کسی بھی شعبے میں نمایاں خدمات انجام دینے والوں کو اسرائیلی ریاست برداشت نہیں کرتی اور انہیں جان سے مارنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ اسرائیلی ریاست کی اس مجرمانہ پالیسی کی کئی مثالیں موجود ہیں۔
کوئی ڈیڑھ ماہ قبل مقبوضہ مغربی کنارے کے وسطی شہر رام اللہ میں البیرہ کے مقام پر ایک نوجوان فلسطینی خاتون انجینیر کو پراسرار طور پر قتل کردیا گیا۔ اگرچہ ایمان حسام الرزہ کی لاش اس کی فلیٹ سے پنکھے کے ساتھ لٹکی ملی جو بہ ظاہر خود کشی معلوم ہوتی ہے مگر اس پراسرار موت نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔بہت سے قرائن کیمیکل انجینیر ایمان الرزہ کے قتل میں اسرائیلی ریاست کے ملوث ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
فلسطینی تفتیش کار اور سیکیورٹی ادارے بھی ڈیڑھ ماہ سے اس کھوج میں لگے ہوئے ہیں کہ آیا ایمان الرزہ نے خود کشی یا اسے ایک منصوبے کے تحت قتل کیا گیا ہے۔
اس طرح کے خدشات اور بھی اس وقت تقویت پکڑ لیتے ہیں جب ملائیشیا میں حال ہی میں ایک فلسطینی سائنسدان ڈاکٹر فادی البطش کو مبینہ طور پر موساد کے حملے میں شہید کردیا جاتا ہے۔
یہاں سب سے اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایمان الرزہ کی موت سے سب سے زیادہ کس کو فائدہ پہنچا؟ صاف بات ہے کہ سب سے زیادہ فائدہ اسرائیل کو پہنچا ہے جو فلسطینی قوم کے زرخیز ذہنوں کو ختم کرنے کی منظم مجرمانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
ابتدائی تفصیلات
یہ اتوار 25 مارچ 2018ء کی شام کا واقعہ ہے جب رام اللہ پولیس نے دعویٰ کہا کہ اس نے ایمان حسام الرزہ نامی ایک نوجوان خاتون کیمیکل انجینیر کی لاش قبضے میں لی ہے۔ اس نے مبینہ طور پر پنکھے کے ساتھ جھل کر خود کشی کی تھی اور اس کی لاش پنکھے سے اتاری گئی ہے۔
پولیس نے لاش قبضے میں لینے کے بعد اسے پوسٹ مارٹم کے لیے رام اللہ میڈیکل کمپلیکس میں پہنچائی جہاں اس کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تاہم تا حال یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آیا اس مجرمانہ قتل کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟۔
مقتولہ کے اہل خانہ بالخصوص اس کی والدہ اور بھائی محسن کا کہنا ہے کہ انہیں جس روز ایمان کی موت کا واقعہ پیش آیا تو اس کے موبائل پر گھنٹیاں بجتی رہی ہیں مگر وہ کال اٹینڈ کرنے کے بجائے اسے مصروف کردیتی تھی۔ بعد ازاں اس کا موبائل فون بند ہوگیا تھا۔
مقتولہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ جب ہم ایمان الرزہ کے فلیٹ پر گئے اور اس کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا مگر اندر سے کوئی جواب نہ آیا اور نہ ہی کسی نے دروازہ کھولا۔ جب اس کے بیٹے اور مقتولہ کے بھائی نے کھڑکی سے اندر دیکھا تو وہ یہ دیکھ کر صدمے سے دوچار ہوگیا کہ ایمان پنکھے کے ساتھ گلے میں پھندہ ڈال کر لٹک رہی تھی اور وہ مرچکی تھی۔
دروازہ اندر سے بند تھا تاہم کمرے کی ایک کھڑی اندر سے بند نہیں تھی۔ محسن نے وہی کھڑکی کھولی اور اندر گیا۔
ماں کا کہنا ہے کہ ایمان کرسی پر کھڑی لٹک رہی تھی اور اس کے سر اور گردن کے گرد لپیٹی رسی ایک طرف دیوار کے ساتھ بھی بندھی ہوئی تھی۔
انہوں نے اس ساری صورت حال کی اطلاع پولیس کو دی جس نے موقع پر پہنچ کر پورے مکان کا معائنہ کیا۔ پولیس نے تفتیش کے لیے محسن کو بھی حراست میں لے لیا مگر وہ ابھی تک یہ معلوم نہیں کرسکی کہ آیا اس سارے واقعے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے۔
اسرائیل کے ملوث ہونے کے قرائن
27 سالہ ایمان حسام الرزہ کو اس کے چچا ایمن کے نام سے یاد کرتے تھے۔ اس کے چچا کو اسرائیلی فوج نے پہلی تحریک انتفاضہ کے دوران عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین کے عسکری ونگ النسرالاحمر قائم کرنے کی پاداش میں قاتلانہ حملے میں شہید کردیا تھا۔
الرزہ کا خاندان فلسطین کے مزاحمتی حلقوں میں شامل رہا ہے۔ اس کے والد حسام کو اسرائیلی فوج 32 بار گرفتار کرچکی ہے اور وہ 16 سال کا عرصہ اسرائیلی جیلوں میں کاٹ چکے ہیں۔ جب ایمان پیدا ہوئیں تو اس وقت بھی اس کے والد اسرائیلی جیل میں تھے۔
مقتولہ کے ایک بھائی اب بھی جیل میں قید ہیں۔ انہوں نے گذشتہ برس اپنی انتظامی حراست کے خلاف طویل بھوک ہڑتال بھی کی تھی۔
ایمان الرزہ کے والد حسام الرزقہ عوامی محاذ کے ایک سرکردہ رہنما ہیں جو کئی سال تک اسرائیلی زندانوں میں قید رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی بیٹی کی خود کشی کے امکان کو کلی طور پر مسترد کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مجرمانہ واقعے کے پیچھے اسرائیلی انٹیلی جنس اداروں کا ہاتھ ہوسکتا ہے۔
والد کا کہنا ہے کہ بیٹی کے وحشیانہ اور منظم قتل کے شواہد میں ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ واقعے کے وقت اس گھر کی نگرانیÂ کے لیے لگایا کیمرہ بھی بند کردیا گیا تھا۔ اس کی پیٹ پر تشدد کے بھی نشانات ہیں۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ایمان کو پنکھے کے ساتھ لٹکانے سے قبل وحشیانہ جسمانی تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔
ایک سوال کے جواب میں حسام الرزہ کا کہنا ہے کہ ان کی جواں سال بیٹی کے قتل میں اسرائیلی انٹیلی جنس اداروں کے ملوث ہونے کا قوی امکان ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ اس مجرمانہ واردات میں فلسطینی اتھارٹی کےانٹیلی جنس اداروں کا بھی کردار ہوسکتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ جس روز ایمان کو قتل کیا گیا اسی رات کو ان کے بیٹے محسن اسرائیلی فوج اٹھا کر لے گئی اور اسے تشدد کانشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی فوج نے محسن پر دباؤ ڈالا کہ وہ ایمان الرزہ کے قتل کے حوالے سے میڈیا میں کسی قسم کی بات نہیں کریں گے اور نہ ہی وہ اس کیس کو عوامی اور انسانی حقوق کے حلقوں میں زیربحث لائیں گے۔ یہ تمام وہ قرائن ہیں جو ایمان کے قتل میں اسرائیلی دہشت گردوں کے ملوث ہونے کی نشاندہی کرتے ہیں۔