ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی میدان میں جیت نے جہاں امریکا کے اعتدال پسند حلقے کو رلا دیا وہیں پوری دنیا کو سوائے چند ایک ممالک یا قوتوں کے ایک نئی تشویش میں ڈال دیا ہے۔ امریکا کا کوئی بھی صدر یا دوسرا عہدیدار اسرائیل کاحامی ہی رہا ہے مگر جس غیرمشروط اور دو ٹوک حمایت کا اعلان ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا ہے وہ اپنے جلو میں کئی خطرات اور خدشات کو سموئے ہوئے ہے۔
دنیا انہیں اپنے اپنے مخصوص جغرافیائی اور سیاسی حالات کے تناظر میں دیکھ رہی ہے مگر فلسطین نے ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کو مسئلہ فلسطین کے لیے ایک نیا خطرہ قرار دیا ہے۔ ٹرمپ کی انتخابی مہم آغاز سے اختتام تک صہیونی ریاست کی حمایت سے لبریز رہی۔ حتیٰ کہ انہوں نے کئی مواقع پر اسرائیل کو مظلوم قرار دینے کے ساتھ ساتھ دھمکی دی تھی کہ اگر وہ امریکا کے صدر منتخب ہوئے تو اسرائیل کا دارالحکومت تل ابیب کے بجائے فلسطین کے اہم ترین اسلامی مرکز مقبوضہ بیت المقدس منتقل کریں گے اور القدس ہی کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیں گے۔
انتخابات میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ہیلری کے 215 ووٹوں کے مقابلے میں 274 ووٹ حاصل کیے۔ کامیابی کے لیے ٹرمپ کو کم سے کم 270 الیکٹوریل ووٹ حاصل کرنا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اگرچہ ابھی زمام کار اپنے ہاتھ میں نہیں لی مگر مبصرین اور سیاسی ماہرین ان کے مسئلہ فلسطین اور عرب ممالک کے حوالے سے پالیسیوں پر تبصرے کررہے ہیں۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ٹرمپ محض ’بھڑک باز‘ ہیں۔ عملا وہ امریکا کی خارجہ پالیسی کو تبدیل نہیں کرسکیں گے۔
معمولی تبدیلی
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کو عالمی مسائل میں الجھانے پر زیادہ مائل نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ دوسرے ملکوں میں امریکا کی مداخلت بھاری مالی وسائل کا تقاضا کرتی ہے اور امریکا کی موجودہ معیشت اس کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ امریکا کی غیرملکوں میں مداخلت کو محدود کریں گے۔ مگر فلسطین کے معاملے میں ان کا طرز عمل مختلف ہوسکتا ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار ڈاکٹر پروفیسر عبدالستار قاسم کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو اندازہ ہے کہ دنیا بھر کے مسائل کو اپنے مسائل قرار دے کران کےحل کے لیے امریکی وسائل کو جھونکنا عقل مندی نہیں۔
فلسطینی دانشور اور صحافی حسام الدجنی کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی جیت بلا شبہ مسئلہ فلسطین کے لیے ایک خطرناک اشارہ ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی خارجہ پالیسی مذہب اور امریکی ریاستی مفادات کےگرد گھومتی ہے۔
ڈاکٹرقاسم کہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں رہا ہے، بلکہ ان کے ایجنڈے میں صرف اسرائیلی مفادات کی بات کی جاتی رہی ہے۔ ٹرمپ کے لب ولہجے اور انداز بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو اپنے مسائل امریکا سے دور رہتے ہوئے خود ہی حل کرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ یوں ٹرمپ نے عرب اور مسلمان ملکوں کو بھی یہ پیغام دے دیا ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے اسرائیل پر دباؤ نہیں ڈالیں گے۔
مستقل پالیسی
پروفیسر عبدالستار قاسم کہتے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ فلسطین میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر اسرائیل کو سرزنش کرنے کے بجائے صہیونی ریاست کی فوجی کارروائیوں کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ یوں صہیونی ریاست فلسطین میں یہودی آباد کاری کے لیے مطلق آزاد ہوجائے گی اور امریکا کی طرف سے اب تک اسرائیل پر یہودی آباد کاری کے حوالے سے دباؤ بھی ختم ہوجائے گا۔
مگر فلسطینی تجزیہ نگار الدجنی کا کہنا ہے کہ امریکی سیاست کی خارجہ پالیسی کو مسئلہ فلسطین، عرب اور اسلامی ممالک کافی حد تک متاثر کرتے ہیں۔ نیز امریکا میں فیصلے فرد واحد کے نہیں بلکہ اداروں کے ہوتے ہیں اور اداروں کی پالیسی طے شدہ اور مستقل ہے۔
ڈاکٹر عبدالستار قاسم نےکہا کہ عالمی سطح پر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی اخراجات کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرے گا۔ ٹرمپ چونکہ دوسرے ملکوں میں جنگوں کو طول دینے کا حامی نہیں ہے۔اس لیے دنیا کے دوسرے خطوں کے لیے امریکی امدادی بجٹ بھی کم ہوجائے گا۔ جس کے بعد ممکن ہے کہ دوسرے ممالک کی امداد کا بوجھ خلیجی ممالک پر پڑے۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں خارجہ پالیسی کو زیادہ تبدیل نہیں کرسکیں گے۔ بعض مسائل کے درمیانے حل کے لیے بھی ٹرمپ کوشش کرسکتے ہیں مگر یہ ان کے ساتھ کام کرنے والی لابی پر منحصر ہوگا۔
اسرائیل کے معاملے میں ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی واضح ہے۔ وہ فلسطینیوں کو اسرائیل کی آنکھ سے دیکھتے اور آزادی کے لیے جدو جہد کو دہشت گردی قرار دینے میں بلا تامل اپنی آرا ظاہر کرچکے ہیں۔
فلسطینی تجزیہ نگار الدجنی کا کہنا ہے کہ امریکا کی خارجہ پالیسی طے شدہ اصولوں پر قائم ہے۔ امریکا اپنے ریاستی مفادات کے گرد خارجہ پالیسی کے خدو خال متعین کرتا ہے۔ امریکا کے فیصلہ ساز اداروں پر یہودی لابی کا چونکہ گہرا اثر رسوخ ہے۔ اس لیے ڈونلڈ ٹرمپ لا محالہ صہیونی ریاست کے مفادات کے لیے تمام حدود کو پھلانگ سکتے ہیں۔
سفارت خانے کی منتقلی
فلسطینی تجزیہ نگار حسام الدجنی کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا وعدہ کرچکے ہیں۔ اگر وہ ایسا کوئی قدم اٹھاتے ہیں تو انہیں عرب ممالک اور عالمی سطح پر اس کے سخت رد عمل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ ڈاکٹر قاسم کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی طرف سے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا دعویٰ اپنی جگہ مگر اس پرعمل کرنا اتنا آسان بھی نہیں کیونکہ اس وقت پورا عرب خطہ جن مسائل کا شکار ہے وہ کسی ایسی مہم جوئی کی امریکا کو بھی اجازت نہیں دے سکتا۔
خیال رہے کہ امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دینے کے ساتھ ساتھ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ ان کے اس بیان پر یہودی لابی نے بغلیں بجائی تھیں مگر عرب ممالک، فلسطین اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کے حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی۔