نابلس (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے مقبوضہ بیت المقدس کو صیہونی ریاست کا دارالحکومت قرار دیے جانے اور امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی کے فیصلے کے رد عمل میں فلسطینی اتھارٹی کو مختلف تجاویز دی جا رہی ہیں۔
سیاسی اور دفاعی ماہرین نے زور دیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی امریکی صدر کے جارحانہ عزائم کی روک تھام کے لیے جرات مندانہ فیصلے کرے۔ ایسے غیر مسبوق جرات مندانہ اقدامات ہی امریکی اور صیہونی مذموم عزائم کی روک تھام میں معاون ہوسکتے ہیں۔۔فلسطینی تجزیہ نگاروں نے کہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اوسلو معاہدہ منسوخ کرنے اور صیہونیوں اور امریکیوں کے ساتھ نام نہاد اور سراب مذاکرات کا عمل ختم کردے۔
فلسطینی تجزیہ نگارزیاد حمدان نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی اوسلو معاہدہ ختم کرے ، تنظیم آزادی فلسطین کا اسرائیل میں تسلیم کیا جانا واپس لے، فلسطینی اتھارٹی ختم کردی جائے۔ نئے قومی اتحاد تشکیل دیے جائیں اور مزاحمت محور سمیت تمام محاذوں پر جدو جہد شروع کی جائے۔
عوامی مزاحمت
زیاد حمدان نے کہا کہ امریکی صدر ٹرمپ کے جارحانہ اور مذموم عزائم کے بعد فلسطین میں آزادی کے حصول اور دفاع القدس کے لیے عوامی مزاحمت کو گراس روٹ سطح تک لے جایا جائے۔ تمام شہروں، دیہاتوں اور گاؤں کی سطح پر عوامی مزاحمتی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔ عوامی مزاحمت کو قومی ایکشن پلان کا حصہ بنایا جائے۔ مسلح مزاحمت اور جدو جہد کے لیے باقاعدہ لیڈر شپ قائم کی جائے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ القدس خطرے میں ہے۔ مسجد اقصیٰ غاصبوں کے نشانے پر ہے۔ امریکی صدر کی طرف سے القدس کے بارے میں جارحانہ اعلان کرکے قبلہ اوّل کو شہید کرنے کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ اب فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کی ذمہ داری ہے کہ وہ پانسہ صیہونیوں اور امریکیوں پر الٹ دیں۔
تعلقات کا خاتمہ
فلسطینی تجزیہ نگار اور عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین کے رہنما زاھر الششتری نے کہا کہ امریکی صدر کے فیصلے کے بعد فلسطین کی طرف سے فوری اور مناسب رد عمل جاری کیا جائے۔ فلسطین میں مزاحمت کے حجم میں اضافہ کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی قوم کے لیے القد ’سرخ لکیر‘ کی مانند ہے۔ کوئی بھی اس لکیر کو عبور کرنے کی جرات نہیں کرسکتا۔ کوئی عرب یا مسلمان ملک بھی القدس کے حوالے سے اپنی مرضی کا فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں۔
انہوں نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کے بعد Â فلسطینی اتھارٹی، عرب ممالک اور عالم اسلام کی طرف سے امریکا کے ساتھ تعلقات قائم رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا ہے۔
دفاعی محاذ
درایں اثناء فلسطینی تجزیہ نگار سامر عنبتاوی کا کہنا ہے کہ القدس کے حوالے سے امریکی صدر کے اعلان کے بعد نام نہاد مذاکرات کا باب بند ہوچکا ہے۔ ٹرمپ کے اعلان کے بعد امریکا کی سرپرستی میں صیہونی ریاست کے ساتھ مذاکرات اب محض دھوکہ ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ امریکی صدر نے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرکے یہ پیغام دے دیا ہے کہ ہم فلسطین ۔ اسرائیل تنازع کے ثالث نہیں بلکہ اسرائیل کے شراکت دار ہیں۔ ہم فلسطین میں صیہونی آباد کاری میں اسرائیل کے ساتھی ہیں اور فلسطین سے عرب آبادی کو نکال باہر کرنے میں اسرائیل کے ساتھ ہمارا بھی ہاتھ ہے۔ فلسطین میں صیہونی آباد کی سرپرست ہیں فلسطینیوں کے خلاف برسزمین اسرائیلی فوج کے ساتھ مل کر لڑ رہے ہیں۔
عنبتاوی نے کہا کہ امریکی عزائم کے سدباب کے لئے فلسطین نیشنل کونسل کے پلیٹ فارم سے تمام فلسطینی دھاڑے متحد ہوجائیں۔
قومی مصالحتی مذاکرات کو مزید گہرائی اور گیرائی تک پہنچایا جائے۔ باضابطہ اور سرکاری سطح پر اعلان کردیا جائے کہ آج کے بعد ’اوسلو‘ سمجھوتہ اپنی موت آپ مرچکا۔
انہوں نے کہا کہ امریکی صدر کی طرف سے مشرق وسطیٰ میں صدی کی ڈیل نہیں بلکہ ‘صدی کی گھناؤنی سازش‘ کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے بڑی اور کیا سازش ہو سکتی ہے کہ قضیہ فلسطین کا مرکز و محورالقدس کے بارے میں صہیونی ریاست کی مرضی کا فیصلہ کرکے آج تک ہونے والی امن مساعی کو دریا برد کردیا ہے۔