فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ بالخصوص اسرائیل کی حمایت میں کیے گئے اعلانات، اسرائیلی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی اور القدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت قرار دینے کے اعلانات پرعمل درآمد کریں گے؟
کیا فلسطینی ریاست کا تصور ختم ہو چکا؟
ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر منتخب ہونے پر اسرائیلی وزیر تعلیم نفتالی بینیٹ نے ایک بیان میں کہا کہ ’فلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ یہاں پر دم توڑ چکا‘ ان کا واضح اشارہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کی طرف جو فلسطین میں یہودی آباد کاری کے کھلم کھلا حامی ہیں اور انہوں نے فلسطینی ریاست کےقیام کے مطالبے کو بھی مسترد کردیا ہے۔
اسرائیلی وزیر نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینی ریاست کے مطالبے کو قبول کرنے سے انکار کردے اور ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کو غنیمت جانتے ہوئے فلسطین۔ اسرائیل تنازع کے ’یک ریاستی حل‘ کے فارمولے پر کام شروع کرے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا موقف بھی یہی ہے۔ وہ اسرائیل کے پہلو میں فلسطینی ریاست کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے۔ انہوں نے اس تصور کوختم کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار حسام الدجنی نے کہا کہ ’اگر ٹرمپ نے اسرائیل کے ساتھ کیے اپنے وعدے ایفا کیے تو نام نہاد امن عمل کا سفر یہاں پر ختم ہوجائے گا‘۔ ان کا کہنا ہے کہ یہودی آبادی کو جواز فراہم کرنے سے فلسطین۔ اسرائیل تنازع کے دو ریاستی حل کا تصور خود بہ خود ہی ختم ہوجاتا ہے۔
الدجنی کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا دور حکومت فلسطینی قوم کے لیے نہایت مایوس کن ثابت ہوگا۔ اگر وہ اسرائیل کے ساتھ کیے اپنے وعدے پورے کرتے ہیں تو فلسطینی قوم کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ اگرڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے وعدے پورے کردیے تو اس کے نتیجے میں پورا فلسطین آتش فشاں بن کر پھٹ سکتا ہے۔
فلسطینی سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر عبدالستار قاسم کا کہنا ہے کہ اسرائیل ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم میں بھرپور طریقے سے شریک رہا ہے۔ ٹرمپ کی اسرائیل کی حمایت اور صہیونی ریاست کے ساتھ کھڑا ہونے کا اعلان امریکا کی توجہ کا اہم ترین مرکز ثابت ہوگا اور اسرائیل امریکا کی سیاست کا اہم ترین جزو بن جائے گا۔
صہیونی امور کے ماہر عدنان ابو عامر کا کہنا ہے کہ ٹرمپ خود بھی دائیں بازو کے ایک انتہا پسند شخص ہیں اور ان کا مؤقف ہمیشہ فلسطینیوں کی مخالفت میں رہا ہے۔ وہ حد درجہ اسرائیل کے طرف دار ہیں۔
ٹرمپ کی آمد کا بے چینی سے انتظار
فلسطینی تجزیہ نگار عدنان ابو عامر نے کہا کہ چاہے ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل اور عربوں کے حوالے سے کیے گئے اپنے اعلانات اور وعدے پورے کریں یا نا کریں وہ بہرصورت اسرائیل ہی کے طرف دار ہوں گے اور فلسطینیوں کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی قوم کی بدقسمتی ہے کہ امریکا میں ایک ایسا سخت گیر شخص صدر بن گیا جو فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کا احترام نہیں کرتا اور حد درجہ صہیونی ریاست کا طرف دار ہے۔
ایک دوسرے تجزیہ نگار الدجنی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر امریکی کانگریس میں ڈونلڈ ٹرمپ کو مضبوط اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑا تو سمجھ لیجیے کہ ٹرمپ نے اسرائیل کے ساتھ کیے اپنے وعدے پورے کردیے۔
ڈاکٹر عبدالستار قاسم نے عدنان ابو عامر کے نقطہ نظر سے اتفاق کیا اور کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل پر دباؤ نہیں ڈالیں گے۔ وہ فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کو طاقت کے استعمال سمیت تمام حربوں کے استعمال کے لیے مکمل طور پر بے لگام کریں گے۔ اسرائیل ٹرمپ کی سرپرستی میں فلسطینیوں کا قتل عام کرے گا اور یہودی توسیع پسندی کا ظالمانہ سلسلہ جاری رکھے گا۔
ڈاکٹر قاسم کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار کے عرصے میں فلسطینی صہیونی ریاست کے جبرو تسلط میں رہیں گے اور صہیونی ریاست ہر ایسے اقدام سے گریز نہیں کرے گی جو اس اس کے لیے مناسب ہوگا۔
عبرانی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے انتہا پسند مقتدر حلقے ڈونلڈ ٹرمپ کے اقتدار تک پہنچنے کے لیے نہایت بے چینی سے انتظار کررہے ہیں۔ ٹرمپ کے اقتدار سنھبالتے ہی صہیونی ریاست فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاری کا طوفان برپا کردے گی اور فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کی جانے والی کوششوں کو دبانے کی منصوبہ بندی کی جائے گی۔