رپورٹ میں مبصرین نے امریکی صدر کے القدس بارے اقدام پر اس کے آئینی پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکا نے اس اعلان سے اسرائیل کے اس موقف کو تقویت دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ متحدہ مشرقی اور مغربیت المقدس اسرائیل کا دارالحکومت ہے اور یہ متحدہ شہر اسرائیل کا ابدی دارالحکومت ہے۔
عالمی برادری کے لیے چیلنج
فلسطینی تجزیہ نگار اور عالمی قانون کے ماہر محمد النحال نے غزہ میں اسلامی یونیورسٹی میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب میں کہا کہ امریکی صدر نے کھلم کھلا عالمی برادری کو چیلنج کرتے ہوئے القدس کے حوالے سے منظور کردہ عالمی قراردادوں اور قوانین کو دیوار پر دے مارا ہے۔ جب کہ تجزیہ نگار باسل منصور کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کا القدس کے بارے میں اقدام عالمی برادری کے لیے چیلنج، انسانی حقوق کے اداروں کے منہ پر طمانچہ ہے مگر ان کے اس اقدام سے القدس کی عالمی قانونی حیثیت سے متاثر نہیں ہوگی۔
اسلامی یونیورسٹی کے پروفیسر النحال نے کہا کہ عالمی قوانین جنہیں سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی سے توثیق حاصل ہےمیں بیت المقدس کو مقبوضہ علاقہ قرار دیا گیا ہے۔ عالمی قانون اسرائیل کو اس بات کا پابند بناتا ہے کہ وہ سنہ 1967ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے علاقوں سے نکل جائے۔
تجزیہ نگار منصور کا کہنا ہے کہ عرب ممالک، عالمی برادری اور علاقائی قوتوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ القدس پر اسرائیل کا قبضہ ناجائز اور باطل ہے اور صہیونی ریاست کو ہر صورت میں اسے خالی کرنا ہوگا۔
تجزیہ نگار محمد شلادہ کا کہنا ہے کہ بیت المقدس کے حوالے سے امریکا کا موقف اور اسرائیل کے اقدامات غیرقانونی، بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہیں۔
قانونی تحفظات
محمد شلادہ کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بیت المقدس کے بارے میں فیصلہ اقوام متحدہ کے معاہدوں اور عالمی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اسرائیل نے فوجی طاقت کے ذریعے فلسطینیوں کی اراضی پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ جس علاقے کو اقوام متحدہ نے مقبوضہ اور متنازعہ قرار دیا ہے اس کی ملکیت کا حق دلوانا بھی قبضے کے جرم میں شامل ہونے کے مترادف ہے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ القدس کے حوالے سے ٹرمپ کا فیصلہ 29 نومبر 1947ء کو منظور کردہ جنرل اسمبلی کی قرارداد کی بھی توہین ہے جس میں فلسطین اور صیہونی ریاست کو الگ الگ حیثیت دینے کے ساتھ بیت المقدس کو عالمی نگرانی میں رکھنے کی سفارش کی گئی تھی۔
تجزیہ نگار النحال کا کہنا ہے کہ امریکیÂ صدر کا موقف القدس کی عالمی قانونی حیثیت کوتبدیل نہیں کرے گا۔ تاہم اس فیصلے نے امریکا کا نام نہاد امن کا دعویٰ اورانصاف کے قیام کی باتیں دنیا بھر میں بے نقاب ہوچکی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فلسطین میں اسرائیل کے تمام ناجائز اور غیرقانونی اقدامات کے پیچھے امریکا کا ہاتھ ہے۔
فلسطینی کیا کرسکتےہیں؟
فلسطینی دانشور محمد شلالدہ کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیے کر اوسلو معاہدے اور عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان طے پائے سمجھوتوں کی بھی خلاف ورزی کی۔ اوسلو معاہدے اور دیگر عرب اسرائیل معاہدوں میں قرار دیا گیا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے خلاف ورزی کی صورت میں فلسطینی اتھارٹی کو ان معاہدے سے الگ ہونے کا حق دیا گیا ہے۔ اس وقت فلسطین کی تمام نمائندہ قوتوں کا یہی مطالبہ ہے کی پی ایل او اسرائیل کے ساتھ طے پائے تمام نام نہاد معاہدوں کو باطلÂ قرار دیا۔
النحال اور منصور کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے پاس امریکی اقدام کے رد عمل میں کرنے کے لیے بہت سے پتے ہیں۔ فلسطینی امریکی اقدام کے خلاف سفارتی اور سیاسی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ امریکا اسے تعلقات کا خاتمہ اور اسرائیل کے خلاف عالمی عدالتوں میں مقدمات کا قیام بھی ممکن ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کو امریکا میں اپنے تمام سفارتی مشن بند کردینے چاہئیں اور عالمی اداروں بالخصوص سلامتی کونسل میں امریکی اقدام کےخلاف سفارتی جنگ تیز کرنا ہوگی۔
فلسطینی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کا کی القدس کو اسرائیلی ریاست کا دارالحکومت قرار دینا اور اس کے بعد امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی کو فلسطین میں اسرائیل اور امریکا کا استعماری ایجنڈا قرار دے کر عرب لیگ اور اسلامی تعاون تنظیم کومتفقہ طور پر امریکا اور اسرائیل کے خلاف موثر فیصلے کرنا ہوگا۔