مقبوضہ بیت المقدس – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) اسرائیل میں اقتدار کی کشتی پر سوار ہونے والوں نے صہیونی ریاست کے خزانے کو حسب توفیق خوب چرکے لگائے مگرموجودہ وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی کرپشن کی کہانی اس کے ما سوا ہے۔
رپورٹ میں نیتن یاھو کی کرپشن کی طویل کہانی پر روشنی ڈالی ہے۔ اسرائیلی عدالتوں میں آنے والے کرپشن کے بڑے بڑے کیسز جن مین سیاسی، فوجی، مذہبی اور سماجی شخصیات ملوث رہی ہیں۔اس سلسلے کی پہلی کڑی اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاھو اور ان کی فیلی ہے۔ حال ہی میں اسرائیل کے عبرانی اخبار ’ہارٹز‘ نے بھی نیتن یاھو اینڈ سنز کی کرپشن کہانی سے پردہ اٹھایا ہے۔
ذیل میں نیتن یاھو کی کرپشن کے کیسز کو تاریخ وار بیان کیا جا رہا ہے۔
حبرون ۔۔ بار اون کیس سنہ 1997ء
سنہ 1997ء میں نیتن یاھو جب پہلی بار اقتدار میں آئے تو انہوں نے ’رونی بار اون‘ کو اپنای قانونی مشیر مقرر کیا تاکہ شاس پارٹی کی حمایت کے مقابلے میں اریہ درعی کے ساتھ معاملہ اچھے انداز میں طے کیے جاسکیں۔
پولیس نے اس کیس کی تحقیقات 90 دن تواتر کے ساتھ جاری رکھیں۔ اس دوران 60 گواہوں، وزیراعظم، 8 وزراء کے بیان قلم بند کیے گئے۔ پولیس نے نیتن یاھو کی کرپشن کے کیس میں ان کے خلاف فوج داری مقدمات چلانے کی سفارش کی۔ نیتن یاھو پر الزام تھا کہ دھمکیاں دینے، ثبوت نذرآتش کرنے، دھوکہ دہی، بلیک میلنگ اور جعلی دستاویزات تیار کرنے کے الزامات عائد کیے گئے۔
پولیس نے سفارش کی نیتن یاھو نے امانت میں خیانت کرنے اور دروغ گوئی کا ارتکاب کیا ہے۔ پولیس کی سفارشات کے مطابق نیتن یاھو سیاسی سرگرمیوں کے دوران مجرمانہ سرگرمیوں کے مرتکب ہوئے ہیں۔
اس وقت کے پراسیکیوٹر جنرل روبنچائن نے نیتن یاھو کے خلاف الزامات کے ثبوت ناکافی قرار دیتے ہوئے جوڈیشل تحقیقات جاری رکھنے کی سفارش کی تاہم سرکاری مشیر نے کیس کو بند کرنے کی سفارش کی جس کے بعد یہ کیس ختم کردیا گیا۔
عمدی کیس 1999ء
اس کیس میں نیتن یاھو اور ان کی اہلیہ سارہ یاھو پرخصوصی عہدوں کی تقسیم اور نوکریاں دینے کے بدلے میں رشوت وصول کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ اس کےعلاوہ ان پر اس کیس میں تحقیقی اداروں پر اثرانداز ہونے، تحقیقات میں رخنہ اندازی کرنے اور امانت میں خیانت کرنے کے الزامات عائد کیے گئے۔
اس کیس کی تحقیقات ستمبر 1999ء میں اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ میں صحافی مردخائی گیلات کی تیار کردہ ایک رپورٹ سے ہوئی جس میں الزام عائد کیا گیا کہ نیتن یاھو اور ان کی اہلیہ نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنھبالنے سے قبل ’اونیر عمدی‘ نامی ٹھیکیدار کے دفتر سے رقوم کی غیرقانونی منتقلی کا الزام عائد کیا گیا۔ تاہم نیتن یاھو نےتمام الزامات بے بنیاد کردیئے گئے تھے۔ بعد ازاں کیس کی تحقیقات روک دی گئیں۔
بیبی ٹوریز کیس 2011ء
اس کیس میں نیتن یاھو اور ان کی اہلیہ پر بیرونی دوروں کے دوران بیرون ملک رقوم کی منتقلی کا الزام عائد کیا گیا۔ اسٹیٹ کنٹرولر شابیرا کے مطابق نیتن یاھو کی سرگرمیوں کو مجرمانہ قرار دیا۔ اسٹیٹ کنٹرولر کی طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ نیتن یاھو اور ان کی اہلیہ کے بیرون ملک دورے کے لیے کسی دوسرے کی طرف سے رقوم کی فراہمی کا کیسے جواز پیدا ہوسکتا ہے۔ پراسیکیوٹر جنرل نے منصوبہ بند کیس قرار دیا اور کہا کہ اس کیس کے ثبوت نہیں ملے کے بعد یہ کیس بھی داخل دفتر کردیا گیا۔
پارک فرنیچر کیس 2015ء
اس کیس میں بھی وزیراعظم نیتن یاھو اور ان کی اہلیہ پر وزیراعظم ہاؤس کے پارک کے فرنیچر کو اپنی خصوصی رہائش گاہ کے لیے استعمال کرنے کا الزام عائد کیا گیا۔ پولیس نے سارہ نیتن یاھو پر دھوکہ دہی کا الزام عائد کیا اور کہا کہ نیتن یاھو اور ان کی اہلیہ دھوکہ دہی، فراڈ اور اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کے مرتکب ہوئے ہیں۔
یہ کیس اپریل 2016ء کو پراسیکیوٹر جنرل کو بھیجا گیا۔ اس کی تحقیقات ابھی تک جاری ہیں۔ دوسری جانب نیتن یاھو کا کہنا ہے کہ ان کے اور خاندان پرعائد کردہ الزامات بے بنیاد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں کئی بار حکومتی اجلاس اپنی رہائش گاہ پر کرتا رہا ہوں۔ میں نے اپنی رہائش گاہ کو سرکاری مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ قیساریہ اور القدس میں میری رہائش گاہوں پر متعدد بار اجلاس ہوچکے ہیں۔
بجلی کیس 2015ء
بجلی کیس میں نیتن یاھو اور ان کی اہلیہ دونوں کو سرکاری خزانے سے ذاتی مقاصد کے لیے بجلی کے اخراجات ادا کیے اور انہیں سرکاری طور پر حاصل مراعات سے تجاوز کرتے ہوئے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا۔
اسٹیٹ کنٹرولر یوسف شابیرا نے تین ماہ تک اس کیس کی تحقیقات کیں۔ یہ تحقیقات ابھی تکÂ پولیس کے ہاں زیرتفتیش ہے۔ اس میں وزیراعظم اور ان کی اہلیہ پر قیساریہ میں واقع اپنی خصوصی رہائش گاہ پر قومی خزانے سے پیسہ خرچ کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
کھانا (میلز)Â کیس 2015ء
یہ ایک حیران کن کیس ہے۔ اس میں نیتن یاھو کی اہلیہ پر الزام ہے کہÂ انہوں نے وزیراعظم ہاؤس میں ان کی سرکاری رہائش پر رہتے ہوئے سرکاری خزانے سے کئی بار تیار شدہ مہنگا کھانا منگوایا۔ بعد ازاں اس کی چار گنا زیادہ قیمت سرکاری خزانے سے وصول کی گئی۔
طبی معائنہ کیس 2015ء
یہ کیس وزیراعظم کی اہلیہ سارہ نیتن یاھو کے بارے میں ہے۔ اس میں خاتون اوّل پر اپنے طبی معائنے کے لیے جو بجٹ دیا وہ ضرورت سے کئی گنا زیادہ تھا۔ اس کیس میں بھی پولیس نے ان پر جھوٹ، دھوکہ دہی، بددیانتی اور خیانت کا الزام عائد کیا ہے۔
ارنومیمران کیس 2016ء
اس کیس میں الزام ہے کہ وزیراعظم نیتن یاھو نے فرانسیسی عرب پتی میمران سے ایک لاکھ 70 ہزار یورو کی رقم وصول کی تھی۔ نیتن یاھو کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ سنہ 2001ء میں یہ رقم اس وقت لی تھی جب وہ سیاسی سرگرمیوں میں مصروف نہیں تھے۔
اوڈیلیا کارمومن کیس 2016ء
نیتن یاھو کے سابق چیف آف اسٹاف آری ھارو جو ایک امریکی تنظیم کے سربراہ ہیں نے ’اوڈیلیا کارمون‘ نامی ایک شخص کو خطیر رقم فراہم کی تھی۔ یہ رقم اس وقت دی گئی تھی جب نیتن یاھو اپوزیشن لیڈر تھے۔ پولیس کا کہنا ہے ھارو اعتماد کو ٹھیس پہنچانے اور 30 لاکھ ڈالر کا ایک جعلی معاہدہ کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
آبدوز کیس 2016ء
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو پر الزام ہے کہ وہ جرمنی سے آبدوزوں کی خریداری کے ایک معاہدے میں رشوت وصولی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ دوران تفتیش نیتن یاھو کے وکیل ڈیوڈ شمرون نے سنہ2016ء میں انکشاف کیا تھا نیتن یاھو نےÂ جرمن کمپنیÂ ThyssenKrupp کے ساتھ تین آبدوزوں کی خریداری کی ڈیل کے دوران قومی خزانے کو نقصان پہنچایا اور رشوت وصول کی تھی۔
کیس نمبر 1000 ، سنہ 2016ء
یہ کیس نیتن یاھو اور ان کی اہلیہ کے گرد گھومتا ہے۔ اس میں ان پر سرکاری خزانے سے مہنگے مشروبات، سیگریٹ خریدے۔ نیز اسرائیلی ارب پتی ارنو ملچان ہالی وڈ فلموں کے پروڈیوسیر اور دیمونا ایٹمی پلانٹ کے معاونت کار سے بھاری قوم وصول کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
پولیس اس کیس کی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے۔ اطلاعات کے مطابق پولیس نے اس کیس کے کافی ثبوت اکھٹے کرلیے ہیں تاہم تحقیقات جاری ہیں۔
کیس 2000، سنہ 2016ء
اس کیس میں الزام عائد کیا گیاÂ ہے کہ نیتن یاھو نے عبرانی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ کی رپورٹ کے مطابق ناشر نونی موزس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت اس اخبار میں نیتن یاھو کی زیادہ کوریج کرنے اور اپوزیشن کے حامی اخبار ’اسرائیل الیوم‘ کی اشاعت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی۔ پولیس نے اس کیس کی تحقیقات کےلیے موزس کو حراست میں لیا تھا تاہم اب اسے رہا کردیا گیا ہے۔
نیتن یاھو پرالزام ہے کہ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اخبارات کو خریدنے اور مخالف اخبارات کی سرکولیشن پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی تھی۔ فی الحال یہ کیس بھی پولیس کے ہاں زیرتفتیش ہے۔