الحاج الھشلمون کی مثال یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ الخلیل کے شہری تاریخ مقدس مقام حرم ابراہیمی میں نماز فجر کے وقت کن کن مشکلات کے ساتھ جاتے ہیں۔ نماز فجر کی ادائیگی ان کے لیے مسجد سے زیادہ موت کےدروازے پرہوتی ہے کیونکہ کوئی بعید نہیں ہوتا کہ کسی بھی وقت کوئی متکبر اورطاقت کے گھمنڈ کا اسیر اسرائیلی دہشت گرد گولیوں کی بوچھاڑ کرکے نمازی کو شہید کردے۔ یہ محض خدشہ نہیں بلکہ ایسا پہلے بھی ہوچکا ہے کہ سنہ 1994ء میں ایک یہودی دہشت گرد نے ماہ صیام کی ایک نماز فجر میں مسجد ابراہیمی میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 29 نمازی شہید ہوگئے تھے۔ مسجد ابراہیمی شہداء اور غازیوں کی آج بھی امین ہے اور اس شہر سے آئے روز شہداء کے جنازے اٹھتے ہیں۔
مسجد ابراہیمی فلسطین کی مقدس ترین تاریخی مساجد میں سے ایک ہے۔ یہ مسجد جلیل القدر پیغمبر حضرت ابراہیم خلیل اللہ کے مزار پر بنائی گئی ہے۔ ابراہیم خلیل اللہ ہی کی نسبت سے اس شہر کو ’الخلیل‘ کا نام دیا گیا ہے اور مسجد کو ’حرم ابراہیمی‘ کہا جاتا ہے۔
مسجد ابراہیمی یا حرم ابراہیمی سنہ 1994ء میں صہیونی ریاست نے ایک سازش کے تحت یہودیوں اور مسلمانوں میں زمانی اور مکانی اعتبار سے تقسیم کردی گئی۔ مسجد کے ایک چھوٹے حصے پر مسلمانوں کو جب کہ زیادہ تر جگہ پر یہودیوں کو مذہبی رسومات کی ادائیگی کا حق دیا گیا۔
مگرعملا یہ مسجد مکمل طور پرصہیونی ریاست ہی کے نرغے اور ناجائز فوجی تسلط میں ہے۔ کوئی ہفتہ اور مہینہ ایسا نہیں جس میں درجنوں بار مسجد ابراہیمی میں نماز یا آذان پر مکمل پابندی عائد نہ کی جاتی ہو۔ یہودیوں کا کوئی مذہبی یا قومی دن آیا نہیں کہ مسجد ابراہیمی میں مسلمانوں کا داخلہ بند نہیں ہوا۔ اس لیے مسجد ابراہیمی میں نمازوں کی ادائیگی کسی آزمائش سے کم نہیں اور مسجد میں جانا موت کے دروازوں سے گذرنا ہے۔ مسجد کے تمام داخلی اور خارجی راستوں پر اسرائیلی فوج کے مسلح فوجی آٹومیٹک مشین گنیں تانے کھڑے رہتے ہیں اور کسی بھی آنے جانے والے فلسطینی نمازی کو بغیر کسی جرم کے گولیاں مار کر شہید کرسکتے ہیں۔ بالخصوص نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی مسجد ابراہیمی میں آمد زندگی سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ چند ہی ہفتے صہیونی دہشت گرد فوجیوں نے مسجد میں نماز کے لیے آنے والی ایک دو شیزہ کلزار عیویوی Â کو مسجد ابراہیمی کے داخلی دروازے پر گولیاں مار کر شہید کردیا تھا۔ حالانکہ وہ مکمل طور پر نہتی تھی۔
جمعہ کی فجر
الخلیل شہر کے باشندے تمام نمازوں بالخصوص جمعہ اور فجر کی نماز مسجد ابراہیمی میں ادا کرنے کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں۔ جمعہ کے روز کی نماز فجر خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ جمعہ کی صبح کی نماز میں بڑے بڑے علماء، شیوخ، سیاسی اکابرین، تاجر اور عام شہری مسجد ابراہیمی میں حاضری کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مسجد ابراہیمی کے ایک مستقل نمازی 62 سالہ کاروباری شخصیت اور فلسطین میں ایک بڑی جیلولری کمپنی کے مالک الحال فضل عابدین بھی شامل ہیں۔ وہ تمام تر صعوبتوں اور صہیونی ریاست کی طرف سے کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو توڑ کر باقاعدگی کے ساتھ نماز فجر مسجد ابراہیمی میں ادا کرتے ہیں۔
الحال فضل عابدین نے کہا کہ ہم مسجد ابراہیمی میں برسوں سے نماز کی ادائیگی کو اپنا معمول بنائے ہوئے ہیں۔ ہم ایک طرف تو مسجد میں با جماعت نماز کی ادائیگی کا اجرو ثواب سمیٹتے ہیں اور دوسری طرف مسجد کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط بنانے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ اسرائیلی ریاست فلسطینی قوم کا تعلق مسجد ابراہیمی سے ختم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مشکلات میں اضافے اور رکاوٹیں زیادہ ہونے کے باوجود نمازیوں کی تعداد میں کمی نہیں آئی۔
فلسطینی قانون دان نادر مرقہ کی رہائش مسجد ابراہیمی سے 5 کلو میٹر دور ہے مگر وہ جمعہ کی نماز فجر باقاعدگی کے ساتھ مسجد ابراہیمی میں ادا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم مسجد میں نماز کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ یہودی آباد کاروں کے سامنے رکاوٹ ڈال رہے ہیں تاکہ وہ مسلمانوں کو اس مقدس مقام سے ہمیشہ کے لیے محروم نہ کردیں کیونکہ وہ ایسا ہی کرنا چاہتے ہیں۔
نادر مرقہ نے کہا کہ ہم گذشتہ 15 سال سے مسلسل مسجد ابراہیمی میں نماز فجر کی ادائیگی کا اہتمام کرتے ہیں۔
الخلیل شہر کے مفتی اعظم الشیخ ماھرشوکت مسودی جمعہ کی نماز فجر کی امامت کراتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسجد ابراہیمی میں نماز کی ادائیگی مسلمانوں پر واجب ہے۔ دیگر مقدس مقامات کی طرح مسجد ابراہیمی کو بھی قابض صہیونیوں سے خطرات لاحق ہیں۔ اسرائیل مسجد کی تعمیرو مرمت پر بھی پابندیاں لگا رہا ہے۔ مسلمانوں کو مسجد سے دور رکھنے کے لیے طاقت کے مکروہ حربے استعمال کر رہا ہے۔