غزہ (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) مظلوم فلسطینی قوم اسلحہ، فوج اور جنگی ساز و سامان کے اعتبار سے تو قابض اسرائیلی ریاست کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی مگر زندہ دل فلسطینیوں نے سوشل میڈیا، مرکزی دھارے میں ذرائع ابلاغ اور پریس کے میدان میں صیہونی دشمن کو ناکوں چنے چبوا رکھے ہیں۔
حال ہی میں جب 30 مارچ کو فلسطین میں ’یوم الارض‘ کے عنوان سے ہزاروں فلسطینیوں نے غزہ کی مشرقی سرحد کی طرف مارچ کیا تو اسرائیلی ریاست نے اپنے روایتی دہشت گردانہ طرز عمل کو اختیار کرتے ہوئے نہتے مظاہرین پر طاقت کا استعمال شروع کردیا۔فلسطینیوں کو درندہ صفت صیہونیوں سے ایسے ہی رد عمل کی توقع تھی۔ دوسری جانب فلسطینی شہریوں نے سوشل میڈیا پر اپنی تحریک کو مزید مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی حکمت عملی اپنائی۔ اخبارات میں ’حق واپسی‘ کی ترجمانی کرنے والے کارٹونز تیار کرنے شائع کرانے شروع کر دیے۔
فلطسینیوں کی مزاحمتی حکمت عملی کی عکاسی کرتے اور اسرائیلی ریاست کی درندگی کا ثبوت پیش کرتے انÂ خاکوں نے صیہونیوں میں جیسے آگ لگا دی۔
گذشتہ جمعہ کو فلسطینی پناہ گزینوں نے ’جمعہ الکوشوک‘ کے عنوان سے مظاہرے کیے، ریلیاں نکالیں اور سرحد کی طرف مارچ کیا۔ اس موقع پر فلسطینیوں نے ٹائر جلا کر بڑے پیمانے پر سرحد پر دھواں پھیلا دیا۔ فلسطینی مزاحمت کاروں کے تیار کردہ خاکوں میں بھی اس دھوئیں کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔
ایک کارٹون میں فلسطینی عوام کو سرحد کی طرف بڑھنے اور احتجاج کرنے کی ترغیب دی گئی۔ اس خاکے نے فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی کو ایک بار پھرزندہ و تابندہ کر دیا۔
فلسطینی سماجی کارکنان بالخصوص کارٹونسٹ علاء اللقطہ کے تیار کردہ خاکوں نے فلسطینیوں کے حق واپسی کے لیے ہونے والی ریلیوں نے بھرپور ترجمانی کی ہے۔
ایک خاکے میں صہیونی فوجیوں کو پرامن اور نہتے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کرتے دکھایا گیا۔ اس کارٹون کے ساتھ قرآن کی یہ آیت کافی بر محل لگتی ہے اور اسے شامل بھی کیا گیا۔”لا يقاتلونكم جميعا إلا في قرى محصنة أو من وراء، جدر بأسهم بينهم شديد، تحسبهم جميعا وقلوبهم شتى”
(وہ تم سے نہیں لڑیں گے مگر محفوظ بستیوں یا دیواروں کے پیچھے چھپ کر۔ ان کی آپس میں لڑائی شدید ہو گی۔ وہ سمجھیں گے کہ ہم متحد ہیں حالانکہ ان کے دل منتشر ہوں گے‘۔
ایک کارٹون میں شہید صحافی یاسر مرتجیٰ کو دکھایا گیا جو غزہ کی فضاء سے لی گئی تصویر کی علامتی منظر کشی کر رہے ہیں۔
سیکڑوں کی تعداد میں فلسطینی روزانہ کی بنیاد پر مشرقی غزہ کی طرف مارچ کرتے اوراسرائیلی فوج کی گولیوں، آنسوگیس کی شیلنگ اور دیگر پُرتشدد حربوں کا سامنا کرتے ہیں۔ چھ ہفتوں پر محیط فلسطینیوں کی یہ تحریک 15 مئی یوم ’نکبہ‘ تک جاری رہے گی۔
فلسطینیوں کے حق واپسی کی تحریک کے حوالے سے تیار کردہ کارٹونوں میں ننھے محمد عیاش کو بھی کافی جگہ ملی ہے۔ اسے فلسطینی قوم نے ایک کم عمر ہیرو کا درجہ دیا ہے۔ محمد عیاش کو تیس مارچ کے روز غزہ کی مشرقی سرحد پر دیکھا گیا۔ اس نے اپنا منہ ایک ایسے ماسک میں چھپا رکھا ہے جس میں پیاز کی ایک ٹہنی بھی باندھ رکھی ہے۔ یہ تصویر سوشل میڈیا کے ساتھ ساتھ عالمی میڈیا کی توجہ کا بھی مرکز بنی۔
ننھے محمد عیاش کا تصویری کارٹون عالمی کارٹونسٹ کارلوس لاتوف نے تیار کیا اور اس کے کارٹون کو بھی فلسطین ، عرب دنیا اور عالمی سطح پر غیر معمولی جگہ ملی اور اسے سراہا گیا۔
ان کارٹونوں نے ایٹمی ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی ریاست کے ریتلے محل کو بھی زمین بوس کر دیا۔ اسرائیلی ریاست فلسطینیوں کی جرات، بہادری، جانثاری اور قربانی کے جذبے سے خوف زدہ ہے ہی اور اب ان کارٹونوں سے بھی خائف ہے کیونکہ ان میں فلسطینیوں کے آئینی حقوق کی ترجمانی اور اسرائیلی ریاست کی عالمی سطح پر بدنامی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔