غزہ – (فلسطین نیوز۔مرکز اطلاعات) فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس بھی بالاخر اگلے مہینے اسرائیل نواز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مہمان بننے جا رہے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق ’تکنیکی وجوہات‘ کی بناء پر صدر عباس اور ٹرمپ کی ملاقات میں تاخیر ہوئی تھی جس کے بعد تین مئی کو یہ ملاقات طے کرلی گئی ہے۔
فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ کی ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے لیے امریکی انتظامیہ نے کچھ شرائط بھی طے کی تھیں۔ گویا فلسطینی صدر امریکا کے دورے کے دوران صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملنے سے قبل بعض شرائط کی پابندی کریں گے۔ اس کے بعد انہیں تین مئی کو دنیا کی سپر پاور کے صدر کے ہاں جانے کی اجازت دی جائے گی۔حال ہی میں صدر محمود عباس نے رام اللہ میں امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی ’سی آئی اے‘ کے چیف مائیک بومبیو اور ٹرمپ کے خصوصی مندوب جیسون گرینبلٹ سے ملاقات کی۔ اس ملاقات سے چندے قبل محمود عباس نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی انتظامیہ ’مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے پرغور کررہا ہے‘۔
اردن کے ایک تجزیہ نگار عبداللہ المجالی نے ایک تازہ مضمون میں صدر عباس اور ٹرمپ کی متوقع ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ لگتا ہے کہ صدر عباس امریکی انتظامیہ کی شرائط پرعمل درآمد کررہے ہیں۔ انہوں نے غزہ کا محاصرہ سخت کرکے وائیٹ ہاؤس کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ قصر سفید کی ہدایات پرعمل درآمد کررہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آیا امریکی انتظامیہ صدر عباس کے انہی اقدامات پر راضی ہوگی یا’ڈو مور‘ کا تقاضا کرتے ہوئے اہالیان غزہ کے لیے مزید پابندیوں کا مطالبہ کرے گی۔
غزہ کی معاشی گردن دبوچنے کی کوشش
مبصرین کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کو جب سے امریکا کی طرف سے ملاقات کی دعوت کا نامہ ملا ہے وہ خوشی سے بے قابو ہوئی جا رہی ہے۔ صدر محمود عباس کی ٹرمپ سے ملاقات کی دعوت کو فلسطینی اتھارٹی ایک خوش خبری سے تعبیر کررہی ہے۔ اس ملاقات کے لیے فلسطینی اتھارٹی کو مزید کئی اپنے فیصلوں اور اصولوں سے دست بردار ہونا پڑا تو وہ اس میں تاخیر نہیں کرے گی۔
ذرائع ابلاغ میں سامنے آنے والی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکیوں نے صدر عباس کے سامنے آٹھ شرائط پیش کی ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات شروع ہونے سے قبل اتھارٹی کو یہ شرائط پوری کرنا ہوں گی۔ اگرچہ کسی سرکاری ذرائع سے ان شرائط کی کی تصدیق یا تردید نہیں کی گئی مگر جس طرح صدر عباس نے غزہ کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کیا ہےاس سے لگتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔
’صدی کا یاد گار معاہدہ‘
کہا جا رہا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے سب سے دیرینہ اور حل طلب مسئلے (فلسطین۔ اسرائیل) کے حل کے لیے پس چلمن کوئی فریم ورک تیار کیا ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار فہمی شراب نے کہا کہ مذاکرات کی بحالی کے لیے اصل شرائط امریکا نہیں بلکہ اسرائیل کی طرف سے پیش کی جائیں گی۔ عین ممکن ہے کہ اسرائیل کی شرائط میں ایسی شرائط شامل ہوں جن کا نتیجہ فلسطینی وحدت کو پارہ پارہ کرنا ہو۔ کیونکہ اسرائیل فلسطینی مزاحمت کو ’علاقائی دہشت گردی‘ قرار دیتا چلا آ رہا ہے۔ اگر فلسطینی اتھارٹی بھی صہیونی فلسفے کی حمایت کرے تو اس کا نتیجہ لا محالہ فلسطینی سماج میں پھوٹ کے نئے بیج بونے کے موجب بنے گا۔
فہمہ شراب کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بہ ظاہر مشرق وسطیٰ میں صدی کا یاد گار معاہدہ کرنے اور اس میں کامیاب ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ از بس ممکن ہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس اسرائیل کی ’شرائط‘ کو من Â وعن تسلیم کریں اور غیر مشروط طور پرعرب ممالک کو بھی ان شرائط پر کار بند بنانے کے لیے کوششیں کریں۔ اس ضمن میں یورپی ممالک بالخصوص سوئٹرزلینڈ، بیلجیم اور سویڈن کا موقف عرب ممالک کے موقف سے زیادہ بہتر ہوسکتا ہے۔
فلسطینی سیاسی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے ذہن میں موجود ممکنہ فارمولا سئلے کو علاقائی سطح پر حل کرنے کا کوئی ایسا ڈفانگ ہوسکتا ہے جس میں اراضی کے تبادکے کے فارمولے کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی کو مستقل طور پرختم کرنا ہو۔
بہر فلسطینی صدر محمود عباس اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات کے بعد جس طرح کا منظرنامہ وجود میں آئے گا اس کی بابت فی الوقت کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ تنازع فلسطین کے چند دیرینہ Â اور مسلمہ اصولوں پر فلسطین کی تمام جماعتیں سودے بازی کو قبول نہیں کریں گی۔ یہ الگ بات ہے کہ فلسطینیوں کو کسی بھی ممکنہ فارمولے پر راضی کرنے کے لئے ان پر گاجر اور چھڑی والا حربہ استعمال کرکے انہیں دباؤ میں لانے کی کوشش کے امکانات موجود ہیں۔
’جذباتی کیفیت ‘
فلسطینی تجزیہ نگار صالح النعامی کہتے ہیں کہ محمود عباس کی ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے اعلان کے بعد فلسطینی اتھارٹی کی کیفیت ’پرجوش اور جذباتی تحریک‘ کے سوا کچھ نہیں۔ فلسطینی اتھارٹی نامعلوم کس خوش فہمی کا شکار ہے کہ صدر ٹرمپ سے اتنی زیادہ توقعات وابستہ کیے ہوئے ہے۔ یہ وہی صدر ٹرمپ ہیں جنہوں نے صدر محمود عباس کی طرف سے (ٹرمپ کی تاج پوشی) پر بھیجے گئے تہنیتی پیغام کا جواب دینا بھی گوارا نہیں سمجھا تھا۔
صدر محمود عباس کے مقربین شاید یہ توقع بھی لگائے ہوئے ہیں کہ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد اور کچھ ہو نا ہو کم از کم محمود عباس اور ان کے گروپ کی فلسطینی اتھارٹی کے کندھوں پر مسلط رہنے کی مزید کچھ عرصہ ضمانت تو مل جائے گی۔یہ الگ بات ہے کہ اس کی فلسطینی قوم کو کیا قیمت چکانا پڑے گی۔
صالح النعامی کا کہنا ہے کہ یہ بات باعث افسوس ہے کہ صدر محمود عباس وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کے ساتھ فوٹو سیشن کو اتنا ہی کافی سمجھیں کہ امریکا انہیں فلسطینی اتھارٹی کا آئینی سربراہ تسلیم کرلے۔
بھاری قیمت
النعامی نے کہا کہ محمود عباس اور ٹرمپ کی ملاقات کو معمولی نہیں سمجھا جانا چاہیے بلکہ اس ملاقات کو فلسطینی قوم کے لیے بہت بھاری قرار دیا جا رہا ہے اور اس کی فلسطینی قوم کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔
اس بھاری قیمت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے انٹیلی جنس چیف ماجد فرج اور امریکی سی آئی اے کے سربراہ بومبیو کے درمیان ملاقات میں فلسطینی اتھارٹی سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اپنی تمام تر توانائیاں اسرائیل مخالف تحریک مزاحمت کو کچلنے پر صرف کریں، جسے اسرائیل اور امریکا دونوں ’دہشت گردی‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔
فلسطینی اتھارٹی بھی جو پہلے ہی سخت بیرونی دباؤ کا شکار ہے مزاحمت کے خلاف جنگ کو مسئلہ فلسطین کو تقویت پہنچانے کے معنوں میں دیکھ رہی ہے۔
مسئلہ فلسطین کے لیے امریکی توجہ کی خاطر اتنا کافی ہے کہ صدر عباس اور ٹرمپ کی ملاقات سے قبل کانگریس نے ڈیوڈ فریڈ مین جیسے آباد کاری کے حامی یہودی کو اسرائیل میں سفیر مقرر کیا ہے۔ یہ وہ صاحب ہیں جو فلسطین کے علاقے غرب اردن میں صہیونی آباد کاری کے لیے فنڈ جمع کرنے کی مہم چلا چکے ہیں۔ صہیونیوں کے تعمیر کیے گئے کئی گھروں کے باہر نصب تختیوں پر لکھا ہے کہ یہ مکان ڈیوڈ فریڈمین کے مالی تعاون سے تعمیر کیا گیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے 45 ویں صدر ہیں مگر آج تک کسی امریکی صدر کے اقتدار سنھبالنے کے اتنے کم عرصے میں فلسطین میں صہیونی آباد کاری کے ریکارڈ نہیں بنے جتنے کے ٹرمپ کے اقتدار سنھبالنے کے بعد بن رہے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کے مدارالمہام چشم بدور رہنماؤں کے لیے فلسطین میں امریکا کی سرپرستی میں صہیونی آباد کاری بھی واضح اشارہ ہے، مگر اشارے عقل مندوں کے لیے ہوتے ہیں۔