فلسطین نیوز کو موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ایک رپورٹ میں ماہرین کی آراء کی روشنی میں اس بات کا جائزہ لیا ہے آیا محمود عباس انتظامی کمیٹی کو تحلیل کیے جانے کے بعد اپنے انتقامی اقدامات سے دست کش ہوں گے یا نہیں۔ انہوں نے غزہ کی پٹی کے عوام پر صرف اس لیے ناروا پابندیاں عائد کیں اور کئی انتقامی فیصلے کیے تھے کہ غزہ میں حماس نے بہ قول ان کے متوازی حکومت قائم کر رکھی تھی۔ حماس نے وہ انتظامی کمیٹی بھی ختم کردی ہے۔
یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ آیا صدر محمود عباس اب قومی مفاہمت کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں گے یا نہیں؟ غزہ کے عوام Â پر عائد کردہ پابندیاں اٹھائیں گے یا نہیں۔
حماس نے اپنے حصے کا کام کردیا ہے۔ مصر کی نگرانی میں حماس نے مذاکرات پرآمادگی کا اظہار کرتے ہوئے اپنی انتظامی کمیٹی تحلیل کرتے ہوئے غزہ کے تمام انتظامی امور قومی حکومت کو سپرد کردیے ہیں۔ حماس نے اس کے ساتھ ساتھ پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کے لیے بھی اپنی آمادگی ظاہر کرتے ہوئے الیکشن کے لیے فضاء ساز گار بنانے پر زور دیا ہے۔
عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین کے سیاسی شعبے کے رکن کاید الغول نے کہا کہ محمود عباس نے فلسطینی تنظیموں اور علاقائی و عالمی قوتوں کو یہ یقین دہانی کرائی Â تھی کہ جیسے ہی حماس انتظامی کمیٹی تحلیل کرے گی وہ غزہ کے عوام کے خلاف اٹھائے گئے تمام انتقامی اقدامات واپس لے لیں گے۔
عملی اقدام کی ضرورت
فلسطینی تجزیہ نگاروں عدنان ابو عامر، ھانی البسوس اور ایمن الرفاتی کا اس بات پر اتفاق ہے کہ حماس کی طرف سے انتظامی کمیٹی تحلیل کرنے کا فیصلہ عملی Â طور پر مفاہمت کی طرف پیش رفت ہے مگر دوسری طرف سے بھی ایسے ہی عملی اقدام کی ضرورت ہوگی۔ ان کا کہنا ہے کہ حماس نے انتظامی کمیٹی تحلیل کرکے درست سمت میں اہم قدم اٹھایا ہے۔ اب تحریک فتح، محمود عباس اور فلسطینی اتھارٹی کے پاس غزہ کے عوام پر پابندیاں عائد رکھنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا ہے۔ حماس نے فلسطینیوں کے درمیان پائے جانے والے اختلافات کو دور کرنے کا سنہری موقع فراہم کیا ہے اور اب اس کے بعد عملی اقدامات فلسطینی اتھارٹی ، تحریک فتح اور محمود عباس کو کرنا ہوں گے۔
تجزیہ نگار ابو عامر کا کہنا ہے کہ مصری حکومت نے فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت کے لیے کوششیں کرکے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حماس کے وفد کے قاہرہ روانگی سے قبل بھی انتظامی کمیٹی کے تحلیل کیے جانے کے امکانات موجود تھے۔ الرفاتی کا کہنا ہے کہ مصر نے تحریک فتح کو دباؤ میں ڈال کر مشکل میں ڈالا ہے کیونکہ حماس نے انتظامی کمیٹی کا معاملہ مصر کے پاس امانت رکھ دیا تھا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ مصری حکام اس وقت فلسطینیوں میں مفاہمت کے لیے ایک فریق کا کردار ادا کررہے ہیں۔ یہ امکان اب بھی موجود ہے کہ تحریک فتح مصر کے مفاہمتی فارمولے سے راہ فرار اختیار کرلے کیونکہ وہ دلی طور پر حماس کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے اب بھی تیار نہیں۔
انتقام کے تمام راستے بند
تجزیہ نگارھانی بسوس کا کہنا ہے کہ حماس نے غزہ میں انتظامی کمیٹی تحلیل کرکے گیند ابو مازن کے کورٹ میں پھینک دی ہے مگر اس میں سب سے اہم کردار مصر نے ادا کیا ہے۔ اب قاہرہ کو چاہیے کہ وہ تحریک فتح اور صدر محمود عباس پرمفاہمت کا عمل آگے بڑھانے کے لیے دباؤ ڈالے۔
تجزیہ نگار الرفاتی کا کہنا ہے کہ غزہ کی انتظامی کمیٹی تحلیل کیے جانے کے بعد محمود عباس کے پاس حماس پراعتراضات کا کوئی جواز باقی نہیں رہا ہے۔ ان کا بھی کہنا ہے کہ مفاہمت کی گیند اب محمود عباس کے کورٹ میں ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ صدر محمودعباس مفاہمت کے لیے آگے آئیں۔ غزہ کی پٹی پر عائد پابندیاں اٹھائیں اور تمام انتقامی اقدامات واپس لیے جائیں۔ بجلی کے بحران کا خاتمہ کیا جائے اور غزہ کے عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے۔
پیچیدگیاں
تینوں مبصرین کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی میں حماس کی انتظامی کو تحلیل کیے جانے کے بعد وہاں کے عوام کے مسائل کے حل میں حائل بڑی رکاوٹ دور ہوگئی ہے۔ اب مزید کسی اور رکاوٹ کو خطر میں لانے کی ضرورت نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام فریقین کو باہمی اعتماد سازی کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے پل کا کردار ادا کرنا چاہیے۔
البسوس کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے درمیان جو بھی مفاہمتی معاہدہ طے پائے اس کے نفاذ کے لیے مصر کو ضامن کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ حماس نے اپنے حصے کا کام کردیا۔ جماعت پرغزہ کی پٹی میں اپنی انتظامی کمیٹی کو تحلیل کرنے کے لیے دباؤ تھا۔ اب یہ مصر اور تحریک فتح دونوں کا امتحان ہے کہ آیا وہ کس حد تک اس میں سنجیدہ ہیں۔
فلسطینی دانشور ابو عامر کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے درمیان مفاہمت کے حوالے سے جتنی کوششوں کی تفصیلات سامنے آئی ہے وہ حماس کی جانب سے ہے۔ اس ضمن میں مصر کا موقف سامنے آنا بھی ضروری ہے۔ حماس یا تحریک فتح کے انفرادی بیانات کافی نہیں ہیں۔