غزہ کے باسیوں کو معلوم ہے کہ اسرائیل کی سرحد کی طرف مارچ اور حق واپسی کے لیے مظاہروں میں حصہ لینا موت کو دعوت دینا ہے مگر اسرائیلی دہشت گردی اور طاقت کے بےرحمانہ استعمال کے باوجود فلسطینیوں کے جذبے ، ہمت اور آزادی کی لگن کم نہیں کی جاسکی۔ ہرآنے والے دن اور گذشتہ جمعہ کی نسبت نئے جمعہ کو زیادہ سے زیادہ فلسطینی نام نہاد سرحد کی طرف مارچ کرتے ہیں۔
ہزاروں فلسطینی ایسے ہیں جو تیس مارچ سے مسلسل سراپا احتجاج اور مظاہروں پیش پیش ہیں۔ انہی میں ایک تیس سالہ مجاھدہ آزادی ام ھیثم بھی ہیں جو روزانہ اپنے بچوں اور شوہر کے لیے کھانا تیار کرکے خود غزہ کی سرحد پر جاری مظاہروں میں شرکت کے لیے چلی جاتی ہیں۔
تیس سالہ مالینا الھندی المعروف ام ھیثم نے اپنی شخصیت، بہادری اور جذبے سے تحریک حق واپسی کو ایک نئی جہت عطا کی ہے۔ وہ غزہ کی سرحد پر ہونے والے کسی بھی واپسی مظاہرے سے غیر حاضر نہیں رہیں۔ حالانکہ انہیں اندازہ ہے کہ غزہ کی سرحد پر مارچ ان کے لیے جان لیوا بھی ہوسکتا ہے اور اسرائیلی فوج کی کوئی گولی ان کی جان لے سکتی ہے مگر اس خطرے کی انہیں ذرا پرواہ نہیں۔
انقلابی ماں
ویسے تو مالینا روزانہ غزہ کی سرحد پر ہونے والے مظاہروں میں شرکت کرتی ہیں بلکہ ہر جمعہ کے روز وہ زیادہ تیاری کے ساتھ فلسطینی پرچم اٹھائے دیگر فلسطینیوں میں سب سے آگے اور سرحد کے زیادہ سے زیادہ قریب جانے کی کوشش کرتی ہیں۔ غزہ کے جنوبی شہر خان یونس کی الامل کالونی میں قائم فلسطینی پناہ گزین کیمپ کی رہائشی مالینا کا کہنا ہے کہ وہ ایک انقلابی خاتون ہیں۔ وہ تحریک حق واپسی کے لیے ہونے والے کسی بھی مظاہرےمیں دوسرے فلسطینیوں سے آگے بڑھ کر ان میں شرکت کرنا چاہتی ہیں۔ وہ جب مظاہرے میں شرکت کرنا چاہتی ہیں تو صبح ہی گھر میں بچوں کو کھانا بنا کر دے آتی ہیں اور اس کے بعد پورا دن فلسطینی پرچم اٹھائے چھینے گئے واپسی کے حق کے لیے مظاہروں میں پیش پیش ہوتی ہیں۔ اس کے شوہر بھی مظاہروں میں شریک ہوتےہیں جب کہ کبھی کبھی اس کے بچے بھی اس کے ہمراہ ہوتے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ حق واپسی ریلیوں اور مظاہروں میں شرکت اور اس کی قومی ذمہ داری ہے اور اس میں تاخیر گوارہ نہیں کرتیں۔
ام ھیثم نے کہا کہ یہ درست ہے کہ غزہ کی پٹی کے عوام بدترین معاشی مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ وہÂ اور اس کا خاندان بھی ان مشکلات کا شکار ہے مگر اس کے باوجود وہ حق واپسی ریلیوں میں شرکت کو اپنا قومی فریضہ سمجھتے ہوئے ان میں شرکت کو اولین ترجیح دیتی ہیں۔
ام ھیثم کے واقف شہریوں کا کہنا ہے کہ انہیں بہادر بیٹی پرفخر ہے جو ہربار چہرے کو فلسطینی کوفیہ سے لپیٹے اور فلسطینی پرچم اٹھائے دوسرے فلسطینیوں سے آگے آگے ہوتی ہیں۔
گولیوں کا مقابلہ
حال ہی میں ام ھیثم نے اپنے چاروں بچوں سمیت حق واپسی ریلی میں شرکت کی۔ اس نےچاروں بیٹوں کو عسکری لباس پہنایا اور ان کے ہاتھوں میں فلسطینیی پرچم تھما کر انہیں حق واپسی ریلی میں شامل کیا۔ وہ سب جانتے تھے کہ وہ اسرائیلی فوج کی گولیوں کا سامنا کررہے ہیں۔ اسرائیلی فوج ان پر آنسوگیس کی شیلنگ بھی کررہی ہے مگر اس کے باوجود ماں اور اس کے بچے سب پورے قومی جذبے اور آزادی کی لگن کے ساتھ ان مظاہروں میں شریک تھے۔
ام ھیثم کی مسکراہٹ اس کی بے خوفی کی واضح علامت ہے اور وہ دیگر فلسطینیوں کی طرح بے خوف وخطر بزدل اسرائیلی افواج کے سامنے پرامن احتجاج کے لیے نکل کھڑی ہوتی ہیں۔
ام ھیثم نے کہا کہ حق دار کو اپنا حق کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے اور نہ ہی اس سے دست بردار ہونا چاہیئے۔ اپنے وطن میں واپسی ہمارا حق ہے اور اپنے حق کے حصول تک جدو جہد جاری رکھیں گے۔